رسائی کے لنکس

بھارت کی گیان واپی مسجد کا معاملہ، ہندو فریق کی درخواست سماعت کے لیے منظور


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت میں وارانسی کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے گیان واپی مسجد سے متعلق انجمن انتظامیہ کمیٹی کی درخواست مسترد کر دی ہے اور مسجد میں یومیہ پوجا کرنے کی اجازت سے متعلق ہندو فریقین کی درخواست سماعت کے لیے منظور کر لی ہے۔

جسٹس اے کے وشویش پر مشتمل یک رکنی بینچ نے پانچ ہندو خواتین کی درخواست سماعت کے لیے قبول کر لی کہ گیان واپی مسجد کی مغربی دیوار پر جہاں ان کا دعویٰ ہے کہ گوری شرنگار مندر ہے، یومیہ پوجا کرنے کی اجازت دی جائے۔ اس مقام پر پہلے سال میں دو بار پوجا کی اجازت تھی۔ عدالت اس معاملے پر اب 22 ستمبر کو سماعت کرے گی۔

ایک ہندو فریق سوہن لال آریہ نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے اور اسے ہندو فریقین کی کامیابی قرار دیاہے۔ انہوں نے خبر رساں ادارے ’اے این آئی‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ گیان واپی مندر کے لیے ایک ٹھوس بنیاد ثابت ہوگا۔

جب کہ مسلم فریق کے وکیل معراج الدین ایڈووکیٹ نے کہا کہ اس فیصلے کو الہ آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا۔

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اے رحمٰن ایڈووکیٹ کے مطابق وارانسی کی عدالت نے کسی قانون کے بجائے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے پوجا کی درخواست کو سماعت کے لیے منظور کیا ہے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ عدالت کسی درخواست کو سماعت کے لیے منظور کرتے وقت قانون کا حوالہ دیتی ہے لیکن وارانسی کی عدالت نے اس معاملے میں کسی قانون کا حوالہ نہیں دیا۔ ان کے بقول عدالت نے مسجد میں پوجا کے حق کی درخواست کو تسلیم کرکے ایک طرح سے مسجد ہندوؤں کے حوالے کر دی ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اب جہاں بھی کسی مسجد کے معاملے میں کوئی تنازع ہو گا اور ہندو فریق پوجا کی اجازت مانگیں گے، تو وہاں اس فیصلے کو نظیر بنا کر پیش کیا جائے گا۔

ان کے بقول ایسا لگتا ہے کہ عدالت نے درخواست گزاروں کو خوش کرنے کے لیے یہ فیصلہ سنایا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 1991 میں جو عبادت گاہ قانون وضع کیا گیا تھا، اس میں سختی کے ساتھ کہا گیا تھا کہ 1947 میں جس عبادت گاہ کی جو حیثیت تھی اب وہی رہے گی، اس کے کردار کو تبدیل نہیں کیا جا سکے گا۔ البتہ ایودھیا کی بابری مسجد کو اس سے مستثنیٰ رکھا گیا تھا۔ ان کے بقول وارانسی کی عدالت نے اس قانون کو نظر انداز کرکے گیان واپی مسجد کے کردار کو تبدیل کر دیا ہے۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا کوئی عدالت ملک کے کسی بھی مندر میں نماز ادا کرنے کی اجازت دے سکتی ہے؟ لہٰذا اگر کوئی درخواست دہندہ یہ کہتا ہے کہ فلاں مسجد میں پوجا کی اجازت دی جائے تو عدالت کو کئی پہلووں سے اس پر غور کرنا ہوتا ہے۔

ان کے خیال میں اگر 1991 کے قانون کو نظرانداز بھی کر دیں تو بھی یہ دیکھنا پڑے گا کہ کس استحقاق کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے اور اس کا پس منظر کیا ہے۔ ان کے بقول عدالت نے کسی بھی ضروری پہلو پر غور نہیں کیا۔

اے رحمٰن ایڈووکیٹ نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر وہ یہ کہیں کہ ایک بھارتی شہری ہونے کے ناطے وہ راشٹرپتی بھون کے لان میں کرکٹ یا ٹینس کھیلنا چاہتے ہیں تو کیا عدالت اس کی اجازت دے دے گی؟ اسی طرح اگر کوئی شخص کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ میں اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت مانگتا ہے تو اسے کیسے اجازت دی جا سکتی ہے؟

یاد رہے کہ ہندووں کا دعویٰ ہے کہ مغل حکمران اورنگ زیب کے حکم سے کاشی وشوناتھ مندر کو توڑ کر اس کی جگہ پر مسجد کی تعمیر کی گئی تھی۔ لہٰذا وہ اس مسجد پر اپنا دعویٰ پیش کر رہے ہیں۔اس موقع پر شہر میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی اور سیکیورٹی کے انتظامات سخت کیے گئے۔

ہوٹلوں اور دیگر عوامی مقامات پر نظر رکھی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا کی بھی نگرانی کی جا رہی ہے۔

حکام کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ مذہبی شخصیات سے تبادلۂ خیال کرکے امن و امان کو یقینی بنائیں۔ پورے شہر کو مختلف سیکٹرز میں تقسیم کر دیا گیا ہے اور اضافی پولیس فورس تعینات کر دی گئی ہے۔

قبل ازیں پانچ ہندو خواتین نے ایک درخواست دائر کرکے گیان واپی مسجد کی مغربی دیوار پر یومیہ پوجا کرنے کی اجازت طلب کی تھی۔

عدالت نے اس درخواست پر کارروائی کرتے ہوئے آٹھ اپریل کو گیان واپی مسجد کے سروے کا حکم دیا تھا، جس پر سروے کمشنر کے مبینہ جانب دارانہ رویے پر تنازع پیدا ہوا اور عدالت نے سروے کمشنر تبدیل کیا۔ سروے کے دوران ہی 16 مئی کو یہ دعویٰ کیا جانے لگا کہ مسجد کے حوض کے اندر شیو لنگ کی دریافت ہوئی ہے۔

انجمن انتظامیہ کمیٹی کے مطابق وہ شیو لنگ نہیں بلکہ فوارہ ہے، جو برسوں سے بند ہے۔ نئے سروے کمشنر نے اپنی سروے رپورٹ 19 مئی کو عدالت میں جمع کرا دی تھی۔ حالاں کہ اس سے قبل ہی اس خفیہ رپورٹ کی تفصیلات میڈیا میں لیک ہو گئی تھیں جس پر عدالت نے ناراضی کا اظہار کیا تھا۔

ادھر مسلم فریق نے ہندو خواتین کی درخواست کو الہ آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا اور کہا کہ ملک میں چوں کہ ایک ایسا قانون موجود ہے، جس کے مطابق 1947 میں جس عبادت گاہ کی جو پوزیشن تھی وہ بحال رہے گی سوائے بابری مسجد کے، لہٰذا یہ درخواست اس قانون کی خلاف ورزی ہے۔ لیکن ہائی کورٹ نے اس کی درخواست مسترد کر دیا تھا۔

اس کے بعد مسلمانوں نے سپریم کورٹ میں اس معاملے کو چیلنج کیا اور کہا کہ اس پر سماعت نہ کی جائے۔

سپریم کورٹ نے اس معاملے کو کہ پوجا کی درخواست سماعت کے لیے منظور کی جائے یا نہیں، وارانسی کی سول عدالت سے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کو منتقل کیا اور کہا کہ وہاں کے جج سینئر اور تجربہ کار ہیں، وہ اس کا فیصلہ کریں کہ مذکورہ َدرخواست قابل سماعت ہے یا نہیں۔

سپریم کورٹ نے وارانسی کے ضلعی مجسٹریٹ کو مسجد اور مبینہ شیو لنگ کے تحفظ کو یقینی بنانے کا حکم دیا ہے۔

عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ مسجد میں نمازیوں کو کسی بھی قسم کی دشواری نہیں ہونی چاہیے۔ مقامی انتظامیہ نے حوض کو ڈھک کر اس کے تحفظ کا انتظام کیا۔

قبل ازیں ہندو فریق کے وکیل مدمن موہن نے دعویٰ کیا کہ مندر توڑ کر مسجد کی تعمیر کی گئی تھی۔

ضلع جج اے کے وشویش نے پانچ خواتین کی درخواست پر گزشتہ ماہ سماعت کے دوران اپنا فیصلہ 12 ستمبر تک محفوظ رکھا تھا۔

اس سے قبل 1991 میں وارانسی کی عدالت میں ایک درخواست دائر کرکے دعویٰ کیا گیا تھا کہ مغل حکمران اورنگزیب کے حکم سے سولہویں صدی میں کاشی وشوناتھ مندر کو توڑ کر گیان واپی مسجد کی تعمیر کی گئی تھی۔ درخواست گزاروں اور کاشی وشوناتھ مندر کے پجاریوں نے مسجد کے اندر پوجا کرنے کی اجازت طلب کی تھی۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG