ویب ڈیسک۔ملیریا کی R21 نئی ویکسین برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی نے تیار کی ہے اور اس کے ٹرائلز سے پتہ چلا ہے کہ یہ 80 فیصد موثر ہے — یعنی اس میں لاکھوں جانیں بچانے اور آخرکار اس بیماری کو ختم کرنے کی صلاحیت موجودہے ۔
ملیریا ایک ایسی بیماری ہے جس کے کیسز پاکستان اور انڈیا سمیت دنیا بھر میں ہوتے ہیں، اور یہ بڑے پیمانے پر اموات کی وجہ بھی ہے۔ تو آخر اس ویکسین کی تیاری میں اتنی تاخیر کیوں ہوئی؟
آکسفورڈ یونیورسٹی میں ویکسینالوجی کے پروفیسر ایڈرین ہل کہتے ہیں کہ تیاری میں مشکل یہ تھی کہ ملیریا وائرس نہیں ہے، یہ ایک پیرا سائیٹ ہے جس کے خلاف ہم ویکسین بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
’’اس میں ہزاروں جینز ہیں۔ اور اس کے لئے کوئی ایک ویکسین ڈیزائن کرنا پیچیدہ ہے۔ 100 سے زیادہ کلینیکل ٹرائلز کے بعد یہ اب تک کا بہترین ڈیٹا لگتا ہے۔اور ہم بہت خوش ہیں۔‘‘
تو سائنس دانوں کی اس پر جوش ردعمل کی وجوہات جاننے سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ یہ پیراسائیٹ ہے کیا؟
عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ پیراسائیٹس وہ ہوتے ہیں جو کسی اور کے بل پر، بلکہ ان کا خون چوس کر زندہ رہتے ہیں، جیسے جونکیں ۔جبکہ مچھر ہمارا خون پیتے ضرور ہیں لیکن اس پر زندہ نہیں رہتے، پھر یہ پیراسائٹس کیا ہیں؟
یونیورسٹی آف ایری زونا کے اسکول آٖف میڈیسن میں امیونوبیالوجی کے پروفیسر ڈاکٹر نفیس احمد امیونولوجی اور جراثیمی امراض میں مہارت رکھتے ہیں۔متعدد ویکسینز کی اسٹرٹیجی پر ریسرچ کر چکے ہیں جن میں ایچ آئی وی ایڈز شامل ہے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ کی اردو سروس سے گفتگو میں بتایا کہ چار طرح کے انفیکشن ایجنٹ ہیں جو انسانوں میں مختلف بیماریوں کی وجہ بنتے ہیں۔ وائرس، بیکٹیریا، فنگس اور پیرا سائیٹ۔ اور ملیریا ایک پیرا سائیٹ انفیکشن ہے۔
’’مچھروں میں یہ جرثومہ یا پیراسائیٹ ہو تا ہے جو مچھر کے کاٹنے کی وجہ سے انسانی جسم میں داخل ہو جاتا ہے۔اس کے بعد خون کے ذریعے وہ پہلے جگر میں جاتا ہے اور وہاں’ ملٹی پلائی‘ کرتا ہے۔پھر وہ خون میں واپس آکر وہاں ملٹی پلائی کرتا ہے اور خون کے خلیوں کو ہلاک کرنا شروع کردیتا ہے، اور اسی کو ملیریا کہتے ہیں‘‘۔
ملیریا کی چار اقسام یاspecies ہیں لیکن جنوبی ایشیا میں دو طرح کی اسپیشیز ہیں۔ جن میں سب سے خطرناک ترین ’فالسی پارم(falciparum)‘ہے۔
’فالسی پارم‘ کیوں اتنا خطر ناک ہے
ڈاکٹر نفیس احمد کے مطابق یہ انفیکشن خون کے سرخ خلیوں کو ہلاک کرنا شروع کردیتا ہے، نئے ، پرانے ، یا جو ابھی بن رہے ہوں۔ اس کے نتیجے میں مریض میں ہیمو گلوبن ختم ہوجاتا ہے اور وہ انیمک ہو جاتے یعنی خون کی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
’’اس وقت تک اگر اسے کنٹرول نہ کیا جائے تو انفیکشن مریض کے دماغ میں چلا جاتا ہے اور cerebral ملیریا کی وجہ بنتا ہے.اس کا علاج دشوار ہے کیونکہ اس میں ملیریا کے علاج کے لئے دی جانے ولی عام دوا ’ہائیڈروکسی کلوروکوین ‘کے خلاف مزاحمت موجود ہے۔ یہ قسم پاکستان میں 20 فیصد، بھارت میں 60 فیصد اور بنگلہ دیش میں 80 فیصد ہے‘‘۔
تاہم، ڈاکٹر نفیس کے بقول، اس کا علاج دواؤں کی آمیزش سے مختلف مرحلوں میں کیا جاتا ہے۔اور اس کے لئے RTS,S نامی ایک ویکسین سن 2019سے افریقہ میں بچوں کو دی جارہی ہے، جسے چالیس فیصد موثر پایا گیا ہے۔ اور اس وقت آکسفورڈ یونیورسٹی کی نئی ویکسین R21 کے ٹرائلز جاری ہیں ۔
وہ کہتے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں ملیریا کی سب سےعام قسم ’وائی ویکس‘ہے، جو پاکستان میں 80 فیصد، بھارت میں 40 فیصد اور بنگلہ دیش میں 20 فیصد ہے۔ اس کا علاج مقابلتاً آسان ہے اور ’ہائیڈروکسی کلورکوین ‘ اس کے علاج کے لئے دی جانے والی عام دوا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس وقت جس ویکسین پر کام ہورہا ہے وہ ہلاکت خیز انفکشن ’فالسی پارم‘ سے بچاؤ کے لئے ہے۔لیکن ڈاکٹر نفیس کا کہنا ہے کہ ایک بار جب یہ ویکسین تیار ہو جائے گی تو اس کے بعدایسی ویکسین کی تیاری بہت جلد ممکن ہے جو ملیریا کی تمام اقسام کے خلاف مدافعت کر سکے گی۔
یہ ویکسین بچپن میں دی جائے گی اور اسے حفاظتی ٹیکوں کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔
یہ مہلک انفکشن پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش تینوں ملکوں میں ہے۔
’فالسی پارم‘ کیوں اتنا خطر ناک ہے
ڈاکٹر نفیس نے بتا یا کہ دنیا میں ہر سال دو کروڑ سے زیادہ ملیریا کے کیسز ہوتے ہیں۔جن میں پانچ لاکھ سے زیادہ سے زیادہ اموات ہوتی ہیں اور بدقسمتی سے مرنے والوں میں زیادہ تعداد پانچ برس سے کم عمر بچوں کی ہوتی ہے۔
2020انہوں نے بتایا کہ میں ملیریا سے ہونے والی اموات کی تعداد چھ لاکھ 27 ہزار تھی اور ذیلی صحارا کے ننھے بچے اس کا سب سے بڑا شکار تھے۔
اس کے لئے RTS,S نامی ایک ویکسین سن 2019سے افریقہ میں بچوں کو دی جارہی ہے، جسے چالیس فیصد موثر پایا گیا ہے۔ اور اس وقت نئی ویکسین R21 کے ٹرائلز جاری ہیں ۔
ملیریا ویکسین کے تازہ ترین فیز ٹو ٹرائل میں افریقی ملک برکینا فاسو کے ایک قصبے نانوورو کے پانچ سے سترہ ماہ کے درمیان کی عمر کے ساڑھے چار سو بچے شامل تھے۔ دی لانسیٹ میڈیکل جرنل میں شائع ہوئے والے یہ نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ بڑی ڈوز والا بوسٹر ملیریا کے انفیکشن کو روکنے میں 80 فیصد موثر تھا۔ اس میں کوئی سنگین سائیڈ افیکٹس نہیں دیکھے گئے۔
اور ان نتائج نے ان ماہرین کے دل میں یہ امید پیدا کی ہے کہ آئندہ برس ٹرائلز مکمل ہونے کے بعد یہ ویکسین تیاری کے مرحلے میں داخل ہو جائے گی اور لاکھوں جانیں بچا سکے گی۔
رپورٹ کے مطابق 4,800 بچوں پر مشتمل جاری فیز تھری ٹرائل کے نتائج اس سال کے آخر میں آنے والے ہیں– اور سائنسدانوں کو امید ہے کہ 2023 میں بڑے پیمانے پرویکسین کی تیاری شروع ہو جائے گی۔
سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا ، جس نے ایسٹرازینیکا نامی کووڈ ویکسین کی لاکھوں خوراکیں تیار کی ہیں، R21 ملیریا ویکسین بھی تیار کرے گا۔
پروفیسر ایڈرین ہل کہتے ہیں،"ہم ملیریا کے ساتھ کچھ ایسا ہی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ایک کم لاگت والی ویکسین تیار کرنے کے لیے - چند ڈالر فی خوراک، تاکہ ہم جلد از جلد ایک کروڑ خوراکیں یا اس سے زیادہ حاصل کر سکیں۔
آکسفورڈ یونیورسٹی میں ویکسینالوجی کے پروفیسر کہتے ہیں کہ "ایک پریشانی یہ تھی کہ یہ تحفظ قلیل مدت کا ہو گا اور صرف چند مہینوں تک ہی کارگررہے گا۔ لیکن یقینی طور پروہ ڈیٹا، جو ہم جاری کر رہے ہیں ایسا نہیں ہے ۔ اور بوسٹرخوراک کے بعد فالو اپ کے دوسرے سال میں اس کی 80 فیصد افادیت واقعی بہت حوصلہ افزا ہے۔"
ماہرین کہتے ہیں کہ اس طرح بلند سطح پر موثر ہونے کی وجہ سےیہ ویکسین اگلی دہائی یا اس سے زیادہ کے دوران کروڑوں جانوں کو بچا سکتی ہے۔ اور پھر ایک ایسی ویکسین پر کام ہوگا جو درحقیقت علاقائی طور پر اور اسی طرح عالمی سطح پربھی اس خوفناک بیماری کو ختم کر سکے۔