ویب ڈیسک (ڈیوا سروس رپورٹ) خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں حالیہ دنوں میں مسلح دہشت گرد حملوں میں اضافے پر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر ریاست شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری پوری نہیں کر سکتی تو پھر یہ لڑائی عوام اور عسکریت پسندوں کے درمیان ہو گی۔
شمال مغربی صوبے کے مختلف علاقوں سوات ،دیر ،خیبر ، کوہاٹ ، کرم اور دوسرے علاقوں میں لوگ عسکریت کارراوئیوں پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں ۔ کئی علاقوں میں اس ہفتے احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے ہیں ۔
خیبر پختونخوا کے علاقے سوات میں بم دھماکے، مسلح طالبان کی امد اور لوگوں سے فون پر رقم کے مطالبے کے خلاف جمعرات کے روز سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد ا نے پنے علاقے میں دہشت گرد کاراوئیوں پر نشاط چوک مینگورا میں احتجاج کیا۔
مظاہرے میں شریک ایک احتجاجی شان الہی کا وائس آف امریکہ کی ڈیوا سروس سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا :
’’ میں نے اپنے والد، چچا اور ایک کزن کو دو ہزار اٹھ میں عسکریت پسندوں کے ایک حملے میں کھو دیا، میرے خاندان کو اس سے کافی نقصان پہنچاہے ، ہم اسے مزید برداشت نہیں کر سکتے، ہمیں جینے دیا جائے‘‘ ۔
ایک اور احتجاجی انور علی بادشاہ کہتے ہیں:
’’ہمارا ایک ہی مطالبہ ہے کہ ہم پشتون علاقوں اور خاص طور اپنے علاقے سوات میں امن چاہتے ہیں ۔ہم اس ریاست کے شہری ہیں ۔اور ہم اپنے ملکی اداروں سے چاہتے ہیں کہ وہ ہماری جان اور مال کا تحفظ کرے‘‘۔
یہ مظاہرے ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب حال ہی میں طالبان نے وہاں دوبارہ کارروائیاں شروع کی ہیں۔
13 ستمبر کو سوات میں مقامی امن کمیٹی کے سربراہ ادریس خان ایک کار دھماکے میں 8 افراد سمیت جاں بحق ہوگئے تھے، اور 15 ستمبر کو کورک کے علاقے میں امن کمیٹی کے ایک اور رکن محمد شیرین کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔
پاکستانی طالبان کے مسلح گروپ نے ان واقعات کی ذمہ داری قبول کی ہے ۔
دوسری جانب حالیہ دنوں میں خیبر پختون خوا کے ،پشاور، دیر، خیبر ، باجوڑ ، کرم سمیت دوسرے علاقوں میں بھی عسکریت پسندوں کی جانب سے پولیس ، فوج اور مقامی امن لیڈروں پر حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔جن میں سے زیادہ تر کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی ہے ۔
خیبر پختونخوا کے ایک سماجی کارکن بن یامین وائس آف امریکہ کی ڈیوا سروس سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’پولیس جو ہماری محافظ ہے ، کچھ نہیں کر سکتی ، ہمارے جو لیڈروں ہیں ان پر بھی حملے ہو رہے ہیں ۔عام لوگ ڈر رہے ہیں کہ ان کا کیا بنے گا انہیں تحفظ کون دیگا "۔
مقامی لوگوں نے احتجاجی مظاہرے اور جرگے منعقد کئے ہیں ۔ ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت ان واقعات کی روک تھام اور امن و امان کے لئے اقدامات کرے ۔
خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات میں اچانک اضافے پر مبصرین تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔
سیکیورٹی تجزیہ ، حق نواز خان کا کہنا ہے :
’’یہ لوگ یہ احتجاج اپنے تحفظ کے لئے کر رہے ہیں ۔اگر ریاست اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتی تو پھر یہ لڑائی عوام اور عسکریت پسندوں کے درمیان ہو گی‘‘ ۔
خیبر پختون خوا کے وزیر اعلی محمود خان نے ایک بیان میں ضلع کرم اور سوات میں حملوں کی مذمت کی ہے ۔اور سوات دھماکے پر پولیس سے رپورٹ طلب کی ہے ۔ انہوں نے ضلع کرم میں سرحد پار سیکیورٹی فورسز پر حملے کو بھی تشویشناک قرار دیا ہے ۔
سرکاری طور پر جاری دو مختلف بیانات میں وزیرِ اعلیٰ نے متاثرہ خاندانوں سے اظہارِ ہمدردی اور یکجہتی کرتے ہوئے پولیس حکام کو ان واقعات میں ملوث افراد کو گرفتار کرنے کی ہدایت کی۔
خیبر پختون خوا میں حکومتی عہدےداروں کا کہنا ہے کہ طالبان سے مذاکارات کا سلسلہ بند نہیں ہوا ۔
خیبر پختون خوا میں وزیر اعلی کے معاون خصوصی ، بیرسٹر محمد علی سیف نے ڈیوا سروس سے بات کرتے ہوئے کہا :
’’طالبان سے آخری مذاکرات اگست کے اوائل میں کابل میں ہوئے تھے ،اس کے بعد ماحول میں کچھ تلخی پیدا ہوئی ، طالبان کے ساتھ صلح کے لئے بات چیت کا عمل جاری ہے ۔ہماری دلی خواہش ہے کہ جنگ بندی قائم رہے ، لوگ نہ مارے جائیں اور امن و امان آئے ،ہماری طالبان کے ساتھ کوئی ڈیل نہیں ہوئی نہ کوئی خفیہ معاہدہ ہوا ہے‘‘۔
سوات میں یہ حالیہ واقعات اس وقت سامنے آئے جب گذشتہ ماہ تحصیل مٹہ میں طالبان کی آمد کی خبریں گردش کرنے لگیں اور سوشل میڈیا پر پولیس اور فوجی اہلکاروں کے اغوا کی ویڈیو سامنے ائی ۔
صوبے کے سابق سیکریٹری داخلہ اور ریٹائرڈ ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (اے آئی جی) پولیس سید اختر علی شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سوات، کرم اور کوہاٹ میں دہشت گردی کے واقعات در اصل ریاست کی کمزوری اور غفلت کا نتیجہ ھے ۔
ان کا کہنا تھا کہ جب بھی ریاست اور ریاستی ادارے کمزور ہوتے ہیں تو جرائم پیشہ افراد کو جرائم کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ ان کے مطابق عسکریت پسند بھی ان جرائم پیشہ افراد میں شامل ہیں۔
تحریک طالبان پاکستان کے جنگجووں نے سوات میں اس سے قبل سال 2007 میں کارروائیاں شروع کیں ،جو جلد ہی پورے خطے میں پھیل گئیں، پھر اسی سال پاکستان کی فوج نے ’’راہ حق‘‘اور دوسری مرتبہ 2009 میں راہ نجات کے نام سے طالبان کے خلاف فوجی آپریشنز کئے تھے۔