رسائی کے لنکس

سوات: غیر ملکی ٹیلی کام کمپنی کے سات ملازمین اغوا، 10 کروڑ تاوان کا مطالبہ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

خیبر پختونخوا کی وادیٴ سوات سے نجی موبائل فون کمپنی کے اغوا کیے جانے والے سات ملازمین میں سے ایک کی تصویر پاکستان میں کالعدم تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے سوشل میڈیا پرجاری کی ہے۔ ٹی ٹی پی نے مغوی ملازمین کی رہائی کے بدلے 10 کروڑ روپے کا مطالبہ کیا ہے۔

ٹی ٹی پی نے جن ملازمین کو اغوا کیا تھا ان میں سے پانچ کو رہا کر دیا ہے، تاہم اس حوالے سے ابھی تک حکومت نے کوئی بیان جاری نہیں کیا اور نہ ہی مغویوں نے کوئی بیان دیا ہے۔

سوات سے تعلق رکھنے والے صحافی عیسیٰ خان خیل کے مطابق ٹی ٹی پی نے نجی ٹیلی کام کمپنی ’ٹیلی نار‘ کے سات ملازمین کو اغوا کیا تھا۔

عیسیٰ خان خیل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سوات کی تحصیل مٹہ میں جانا گاؤں سےٹی ٹی پی نے ٹیلی نار کے ملازمین کو اغوا کیا ۔

ان کا کہنا تھا کہ ملازمین کو رہا کرنے کے بدلے 10 کروڑ روپے تاوان کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

مغوی افراد میں کمپنی سے منسلک انجینئر یوسف شاہ،محمد خالد، ارسلان محمد اسبر ملک، کمپنی کے ڈرائیور عبد الحکیم اور ایک مزدور وقت علی شامل ہیں۔

ٹی ٹی پی نے ٹیلی کام کمپنی کے ملازمین میں سے ایک مزدور کی تصویر جاری کی ہے۔

تصویر میں دو بندوق بردار عسکریت پسندوں نے مردان کے تحت بھائی سے تعلق رکھنے والے مزدور کو زمین پر بٹھایا ہوا ہے۔

دوسری جانب صوبے کے تین مختلف علاقوں میں ہونے والے تشدد اور دہشت گردی کے واقعات میں مجموعی طور پر 11 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں سوات کی تحصیل مٹہ کی امن کمیٹی کے سربراہ کے علاوہ فرنٹیئر کور کے تین اور پولیس کے دو اہلکار بھی شامل ہیں۔

فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ سرحد پار افغانستان سے مبینہ عسکریت پسندوں نے قبائلی ضلعے کرم میں سیکیورٹی فورسز کی ایک چوکی پر حملہ کرکے تین اہلکاروں کو ہلاک اور متعدد کو زخمی کیا۔

بیان کے مطابق افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان کی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ کسی کو بھی پاکستان کے خلاف افغانستان کی سر زمین استعمال کرنے کی اجازت نہ دے۔

تحصیل مٹہ میں نامعلوم عسکریت پسندوں نے دیسی ساختہ ریموٹ کنٹرول بم سے برا بانڈیٴ گاؤں کے امن کمیٹی کے سربراہ ادریس خان کی گاڑی کو نشانہ بنایا۔ اس حملے میں آٹھ افراد ہلاک ہوئے۔

سوات کی پولیس کے سربراہ زاہد مروت کے مطابق دھماکے میں ہلاک ہونے والے پانچ افراد کی لاشیں منگل کو رات گئے بر آمد ہوئی تھیں جب کہ باقی تین لاشیں بدھ کی صبح ملی ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں دو پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔

ٹی ٹی پی کے ترجمان نے ایک بیان میں اس بم حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے اور دعوٰی کیا ہے کہ حملے کا نشانہ ادریس خان تھے، جنہوں نے 13 برس قبل فوج کے آپریشن میں طالبان کے خلاف کارروائیوں میں فورسز کی مدد کی تھی۔

ٹی ٹی پی نے اس بم حملے کو انتقامی کارروائی قرار دیا ہے۔

جنوبی شہر کوہاٹ میں نامعلوم عسکریت پسندوں نے منگل کی شام بلی ٹنگ تھانے پر جدید خود کار ہتھیاروں سے حملہ کیا۔

حملے سے تھانے کے ایس ایچ او سمیت آٹھ اہلکار زخمی ہوئے۔

دوسری جانب صوبے کے وزیرِ اعلیٰ محمود خان نے مٹہ میں بم دھماکے اور کرم میں چوکی پر عسکریت پسندوں کے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔

سرکاری طور پر جاری دو مختلف بیانات میں وزیرِ اعلیٰ نے متاثرہ خاندانوں سے اظہارِ ہمدردی اور یکجہتی کرتے ہوئے پولیس حکام کو ان واقعات میں ملوث افراد کو گرفتار کرنے کی ہدایت کی۔

خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات میں اچانک اضافے پر مبصرین تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ صوبے کے سابق سیکریٹری داخلہ اور ریٹائرڈ ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (اے آئی جی) پولیس سید اختر علی شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سوات، کرم اور کوہاٹ میں دہشت گردی کے واقعات در اصل ریاست کی کمزوری اور غفلت کا نتیجہ ھے ۔

ان کا کہنا تھا کہ جب بھی ریاست اور ریاستی ادارے کمزور ہوتے ہیں تو جرائم پیشہ افراد کو جرائم کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ ان کے مطابق عسکریت پسند بھی ان جرائم پیشہ افراد میں شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حالیہ واقعات کا ایک مقصد عام لوگوں کو دباؤ میں لانا بھی پہے۔

سید اختر علی شاہ نے کہا کہ ریاستی اداروں نے پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر خاردار باڑ لگانے پر کروڑوں ڈالر خرچ کرنے کے دعوے کی تا کہ افغانستان سے دہشت گردوں کا پاکستان میں داخلہ روکا جا سکے البتہ یہ تجربہ بھی ناکام ہوا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ریاست چاہے تواس قسم کے واقعات کی روک تھام ممکن ہے۔

ان کے مطابق صرف پولیس کو اختیار دینے سے دہشت گردی کے واقعات کم ہوسکتے ہیں، اگر قابل اور مستعد پولیس افسران کا انتخاب کرکے ان کو اختیار دیا جائے تو دہشت گردوں کی سرگرمیاں ختم کی جا سکتی ہیں۔

XS
SM
MD
LG