کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) گزشتہ چند روز کے دوران کی جانےوالی اپنی کارروائیوں کو 'دفاعی حملوں' کا نام دے رہی ہے۔ جس کے بعد طویل مذاکرات کے نتیجے میں جون میں ہونے والی جنگ بندی کا مستقبل ایک بار پھر خطرے میں پڑ گیا ہے۔
ٹی ٹی پی نے ایک بیان میں اعتراف کیا ہے کہ پیر کو سیکیورٹی فورسز کے چھاپے کے دوران ان کے دو جنگجو مارے گئے تھے جب کہ پاکستان فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) نے بھی ایک بیان میں کہا تھا کہ شمالی وزیرستان کے علاقے بویا میں جھڑپ کے دوران کیپٹن سمیت پانچ اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔
شمالی وزیرستان میں یہ جھڑپ ایسے موقع پر ہوئی ہے جب فریقین نےجون میں غیر معینہ مدت تک جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا۔لیکن اسی دوران ایک دوسرے پر حملوں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔
شدت پسندی کے موضوع پر تحقیق کرنے والے سویڈن میں مقیم محقق عبدالسید کہتے ہیں اعلان شدہ جنگ بندی کے باوجود گزشتہ چند روز کے دوران ٹی ٹی پی کے سیکیورٹی فورسز کے خلاف حملوں میں شدت آئی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فریقین کے درمیان بات چیت کا عمل سست روی کا شکار ہے اور ٹی ٹی پی کے حملوں میں تیزی کا بظاہر مقصد مذاکراتی عمل میں دوبارہ تیزی لانا ہو سکتا ہے۔
عبدالسید کے بقول، "ٹی ٹی پی کی جانب سے اپنے حملوں کے لیے 'دفاعی' لفظ استعمال کرنا شاید اسی مقصد کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ مذاکرات کے خاتمے کے حق میں نہیں ہیں اور وہ اپنے جنگجوؤں کو بھی یہ باور کرا رہے ہیں کہ اگر مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوتے تو وہ جنگ کو دوام دیں گے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ اگر دونوں طرف سے ایک دوسرے کے خلاف حملے جاری رہے تو مذاکراتی عمل بے معنی ہو کر رہ جائے گا۔
خیال رہے کہ خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے قبائلی عمائدین اور علما کے وفود افغانستان میں ٹی ٹی پی قیادت سے مذاکرات کرتے رہے ہیں۔
سابق سیکریٹری دفاع اور دفاعی تجزیہ کار لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) آصف یاسین کا کہنا ہے کہ وہ بنیادی طور پر ٹی ٹی پی کے ساتھ امن معاہدوں کے حق میں نہیں ہیں کیوں کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ کیے گئے معاہدے کبھی بھی کارآمد نہیں ہوئے۔
ان کے بقول ٹی ٹی پی کے ساتھ موجودہ معاہدے کی ساخت ہی غلط تھی۔ چوں کہ یہ مذاکرات ٹی ٹی پی کے ساتھ ہو رہے تھے تو ان مذاکرات کی سربراہی ایسے عمائدین کو کرنا چاہیے تھی جو گزشتہ بیس برس سے شورش کا شکار ہیں۔
یاد رہے کہ جنرل آصف یاسین 11 کور کی بھی کمانڈ کر چکے ہیں جس کا دائرہ کار سابقہ فاٹا اور پاک افغان سرحد تک پھیلا ہوا تھا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے آصف یاسین نے ٹی ٹی پی کے ساتھ ہونے والے جنگ بندی کے معاہدے میں خامیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا میں لیک ہونے والے معاہدے کے چند اقتباسات میں یہ شامل تھا کہ ٹی ٹی پی کے جنگجو ؤں کو اسلحہ لے کر گھومنے کی اجازت ہو گی۔
'سماجی انصاف علاقے میں اہم موضوع بن گیا ہے'
حالیہ چند روز کے دوران سوات اور دیگر علاقوں میں مقامی افراد نے ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو اسلحہ کی نمائش کرتے ہوئے دیکھا تھا جس سے علاقے میں تشویش پائی جاتی تھی۔ ٹی ٹی پی کے خلاف سوات، بونیر، دیر، باجوڑ اور خیبر ایجنسی میں بڑے پیمانے پر ریلیاں بھی نکالی گئیں جب کہ ملک کے دیگر حصوں سے بھی کچھ ایسی ہی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
جنرل (ر) آصف یاسین کے مطابق گزشتہ دس سالوں میں فوج کی جانب سے ٹی ٹی پی کے ساتھ کسی بھی نوعیت کا معاہدہ نہیں ہوا۔ فوج نے مقامی لوگوں کی مدد سے دہشت گردوں کے خلاف گھیرا تنگ کرکے ملٹری آپریشن کیے جس کے بعد دہشت گردوں کا مکمل صفایا کیا گیا۔
ان کے بقول سسٹم میں خرابی فاٹا کے انضمام کے بعد اس صورت میں آئی جب مقامی افراد کی بہتری کے لیے کوئی راہیں نہیں نکالی گئیں۔ علاقے میں عدالتیں، پولیس، سیکیورٹی اور انفرااسٹرکچر کے کاموں کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ جس کے بعد علاقے میں سماجی انصاف ایک اہم موضوع بن گیا ہے۔
آصف یاسین کہتے ہیں کہ کوئی بھی دہشت گرد تنظیم کسی بھی علاقے میں کامیابی سے نہیں پنپ سکتی جب تک وہاں اس کے لیے ماحول سازگار نہ ہو۔علاقے میں ایک سیاسی خلا موجود ہے جسے ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں نے موقع غنیمت جان کر بھرنا شروع کر دیا ہے۔
جنوبی وزیرستان کے محسود قبیلے سے تعلق رکھنے والے ایک مقامی صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ٹی ٹی پی کے جنگجو کھلے عام علاقے میں پھرتے ہیں اور انہوں نے مختلف مقامات پر چیک پوائنٹس بھی بنا لی ہیں اور وہ جرگے بھی منعقد کر رہے ہیں۔
ان کے بقول حکومت سے جنگ بندی کےبعد کالعدم تنظیم مکمل طور پر منظم ہو گئی ہے اور اگر جنگ بندی کا خاتمہ ہوا تو صورتِ حالات مزید کشیدہ ہو سکتی ہے۔
جنرل آصف یاسین کے مطابق ٹی ٹی پی سے نمٹنے کاواحد طریقہ عوام کی بھر پور تائید کے ساتھ فوجی آپریشن ہے اور یہ اسی صورت ممکن ہو گا جب قبائلی علاقوں میں نظامِ حکومت مؤثر طریقے سے بحال کرنے کے ساتھ وہاں عوام کے ساتھ کیے گئے وعدوں کو پورا کیا جائے۔