’’تارکین وطن کو جو سب سے بڑی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے وہ اپنے والدین اور عزیزوں سے دور رہنا ہے۔ پیاروں کی کمی باہر کی دنیا میں بہتر زندگی اور آسائش سے پوری نہیں ہوتی ‘‘۔
یہ ہیں سراج وہاب سعودی عرب کے کلیدی انگریزی روزنامے عرب نیوز کے مینیجنگ ایڈیٹر اور آج وہ وائس آف امریکہ کی پوڈ کاسٹ سیریز ’’کل اور آج‘‘ میں ہمارے مہمان ہیں۔
وائس آف امریکہ کے سامعین سراج وہاب کو ایک خیر جانبدار تجزیہ کار کے طور پر جانتے ہیں ۔ وہ سعودی عرب کے ایک معروف اور بڑے شہر جدہ میں مقیم ہیں۔
بھارت سے تعلق رکھنے والے سراج وہاب نے اپنا وطن چھوڑ کر دیار غیر کو اپنا وطن کہنے کا انتخاب کیوں کیا؟ وہ بتاتے ہیں:
’’ طالب علمی کے زمانے سے ہی یہ خیال تھا کہ تعلیم مکمل کرکے باہر کی دنیا کا بھی مشاہدہ کیا جائے کیونکہ اس وقت تک دنیا ابھی آج کی طرح کا گلوبل ویلیج نہیں بنی تھی اور نوجوان خواتین اور مرد سبھی کے لیے باہر کی دنیا توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھی ۔ لوگ اپنے ملکوں سے باہر جا کر دوسرے ملکوں میں زندگی کی صورت کا مشاہدہ کرنا چاہتے تھے ۔اور پھر یہ بھی سمجھا جاتا تھا کہ سفر اپنی وسعت نگاہ کے لیے ضروری بھی ہے ۔اس لیے یہ احساس تقویت پکڑتا گیا کہ کسی دوسرے ملک جا کر اپنی ذہانت آزمائیں اور وہاں سے مزید سیکھ کر وطن لوٹیں ‘‘۔
آزادی اظہار کے حوالے سے کل کے سعودی عرب اور آج کے بظاہر بدلتے ہوئے سعودی عرب میں کیا فرق دیکھا ہے؟ کام کے حوالے سے کیا فرق محسوس کیا ہے۔؟
سراج وہاب نے 1990 کی دہائی کے اوائل میں مومبئی کے ایک روزنامے میں کام کے دوران کے ۔این رادھا کرشنن سے اپنی ملاقات کو یاد کیا جن سے ان کے ایڈیٹر نے متعارف کرایا ۔ رادھا کرشنن ایک بڑے صحافی ہیں اور سعودی عرب میں صحافت سے منسلک ہیں ۔ سراج وہاب کہتے ہیں کہ ان کا بے ساختہ سوال تھا۔
’’ کیا سعودی عرب میں بھی صحافت ہوتی ہے اور پریس ریلیز کے علاوہ بھی کوئی کام کیا جاتا ہے ؟‘‘
ہم نے بہت اشتیاق سے سعودی عرب میں صحافت کے انداز سے متعلق بات کی کیونکہ انٹر نیٹ نہ ہونے کی وجہ سے سعودی اخبارات یا رسائل کے بارے میں معلومات نہ تھیں۔اور یوں ان سے بات کرکے وہاں کی صورتحال کے بارے میں علم ہوا۔
سراج وہاب 1990 کی دہائی کے وسط میں روزگار کے سلسلے میں سعودی عرب کے ایک بڑے روزنامے ’’عرب نیوز‘‘ سے وابستہ ہوئے اور وہاں پہنچ کر ، ان کےبقول، انھیں معلوم ہوا کہ دنیا کے کئی بہترین صحافی اس روزنامے سے منسلک ہیں ۔اور دوسرے ممالک میں جس انداز میں سعودی عرب کو دیکھا اور سمجھا جاتا ہے ، صورتحال اس سے کہیں مختلف ہے۔
میں نے جاننا چاہا کہ سعودی عرب میں بچوں کے ساتھ زندگی گزارتے ہوئے کبھی اس کمفرٹ زون سے نکلنے پر پچھتاوا ہوا جو اپنے ملک کے اندر حاصل ہوتا ہے ؟
سراج وہاب کہتے ہیں:
’’تارکین وطن کو جو سب سے بڑی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے وہ اپنے والدین اور عزیزوں سے دور رہنا ہے اوربہتر زندگی اور آسائش اس کا متبادل نہیں ہوتا لیکن پچھتاوا نہیں ہوا کیونکہ تارکین وطن کی ایک بہت بڑی کمیونٹی نے کبھی اکیلے پن کا احساس ہی نہیں ہونے دیا۔‘‘
صحافت سے وابستگی کی وجہ سے ان کی ملاقاتوں کا سلسلہ وسیع تھا اور سوشل نیٹ ورک میں شامل ہوتے کوئی دقت نہ ہوئی ۔ فیمیلیز ایک دوسرے کو ہاتھوں ہاتھ لیتی تھیں اور نئے آنے والوں کے مسائل سے آگاہ ہوتے ہوئے ان کی مدد بھی کرتی تھیں اور یوں اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا تھا۔
’’ اردو کی محفلیں سجنے لگیں اور ایک طبقہ تو ایسا تھا کہ وہ اکٹھے ہو کر پاکستانی ڈرامے دیکھنے کا اہتمام کرتا تھا ، ان کہی ، تنہایاں اور مرینہ خان کے تمام ڈرامے ان محفلوں کی زینت بنے اور سعودی عرب میں مقیم ان افراد نے پاکستانی ڈراموں کے کرداروں کے نام اپنے بچوں کو دیے ۔پھر ساحل سمندر پر باربی کیو پارٹیوں کا اہتمام ، اور دوستوں کی صحبت نے کبھی تنہائی محسوس نہیں ہونے دی ‘‘
سراج وہاب سے ہم نے زبان اور کلچر کے مختلف ہونے سے اور بچوں کو اس سے ہم آہنگ کرنے میں ان کے وقت اور کوششوں کے بارے میں بھی بات کی ہے ۔ کیا باہر رہتے ہوئے کبھی کسی امتیازی سلوک کا سامنا رہا؟ان سب سوالوں کے دلچسپ جواب سننے کے لیے سب سے پہلے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔