نیویارک۔ پاکستان میں آنے والے سیلاب کے لیے دی جانے والی امداد کے حوالے سے گزشتہ دنوں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے، وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر نے کہا تھا کہ دنیا بھر سے امداد کے وعدے تو بہت ہیں مگر دیکھنا یہ ہے کہ یہ وعدے عملی شکل کیسے اختیار کرتے ہیں، اور یہ کہ یہ امداد کس طرح سے آتی ہے۔ انہوں نے اس بارے میں بھی اپنی تشویش ظاہر کی تھی کہ آیا یہ امداد براہ راست ہمارے عوام کو فائدہ پہنچائے گی یا بیچ کے سسٹمز میں پھنس کے رہ جائے گی۔
اسی عالمی فورم کے موقع پر بطور وزیرِ خزانہ پاکستان کی نمائندگی کرنے والے مفتاح اسمعیل نے بھی صحافیوں سے بات کر تے ہوئے ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ امریکہ سمیت بہت سارے ممالک پاکستان میں بھیجے جانی والی امداد خود ہی بانٹتے ہیں ، اور ہماراکام لاجسٹک اور سیکیورٹی فراہم کرنے کے علاوہ کچھ زیادہ نہیں ہوتا ہے۔
وزراء کے ان بیانات نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ عالمی برادری کی امداد کے پاکستان پہنچنے میں کیا مشکلات حائل ہو سکتی ہیں اور کیوں یہ امداد حکومت پاکستان کی براہ راست دسترس میں نہیں؟
پاکستان کے لیے انٹرنیشنل فنڈنگ میں مشکلات کیا ہیں؟
سینئر صحافی اور تجزیہء کار طارق محمود اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ پہلی بات تو یہ کہ پاکستان میں سال دو ہزار گیارہ کے بعد سے
انٹرنیشنل این جی اوز پر پابندیوں کی وجہ سے بہت سے ادارے پاکستان میں کام کرنے سے کترانے لگے ,اور گنتی کی چند آئی این جی اوز ہی باقی بچی ہیں۔بہت سے ممالک بھی اپنے فنڈز انہی انٹرنیشنل این جی اوز کے ذریعے متاثرین تک پہنچاتے تھے۔ ان پابندیوں کی وجہ سے وہ سلسلہ بھی محدود ہو گیا۔ اس کے بعد بیرونِ ملک سے فنڈز کی ٹرانسفر کا طریقہ کار اس قدر پیچیدہ بنا دیا گیا کہ پاکستانی این جی اوز کو بھی بیرون ملک سے فنڈنگ لانے میں کافی مشکلات پیش آتی ہیں ۔
واشنگٹن ڈی سی سے سینئر پاکستانی صحافی اور تجزیہ کار، انور اقبال کی رائے بھی اس سے مختلف نہیں تھی مگر وہ ان این جی اوز پر حکومت کی جانب کسی حد تک نظر رکھنے کے حق میں ہیں تاکہ رفاہی کاموں کی آڑ میں پیسہ بنانے والوں کو پکڑا جا سکے۔
کیا اعلان کردہ بیرونی امداد کی پوری رقم پاکستان پہنچتی ہے؟
دونوں صحافیوں کے مطابق امریکہ سمیت بیشتر ممالک اپنی انٹرنیشنل فنڈنگ کے قوانین کے مطابق کوشش کرتے ہیں کہ امداد ان کے اداروں یا پاکستان میں موجود شراکت دار تنظیموں کے ذریعے تقسیم کی جائے۔ انور اقبال کا کہنا تھا کہ اس میں ایک مسئلہ یہ ہے کی امریکی ماہرین کے مطابق اعلان کردہ رقم کا بڑا حصہ، امداد کرنے والے ملک میں ہی رہ جاتا ہے۔ بعض ماہرین کے مطابق اس کی شرح چالیس سے ساٹھ فیصد تک ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ امداد دینے والے ممالک کے قوانین خاصے سخت ہوتے ہیں اور ان ممالک کی کوشش ہوتی ہے کہ جو امدادی سامان یا پراجیکٹس ہوں وہ ان کی اپنی کمپنیز کو ملیں، جیسے امریکہ پاکستان بھیجے جانے والی دوائیں امریکی کمپنیوں ہی سے خریدتا ہے تاکہ ان کمپنیز کو منافع ہو اور یہ منافع خاصہ زیادہ ہوتا اس طرح امدادی رقم کا بڑا حصہ انہی ممالک میں رہ جاتا ہے۔
کیا امداد متاثرین تک پہنچ رہی ہے؟
طارق محمود کے مطابق اگرچہ بین الاقوامی امدادی سامان کی تقسیم کے لیے مقامی لوگوں کی مدد سے کافی مفصل طریقہ کار اپنایا جاتا ہے مگر حکومت کی طرف سے کوآرڈی نیشن کا فقدان نمایاں ہے۔ مناسب ڈیٹا بیس نہ ہونے کی وجہ سےڈپٹی کمشنر کی رپورٹس پر امدادی سامان کی تقسیم کی جارہی ہے خواہ کسی علاقے میں ضرورت ہے یا نہیں۔ اس کی وجہ سے ایک خاندان کو پانچ پانچ خیمے مل رہے ہیں اور دوسرے کو ایک بھی نہیں۔
انور اقبال کی رائے میں مناسب کوآرڈی نیشن کے بغیر کوئی امدادی کام بخوبی مکمل نہیں کیا جا سکتا۔
طارق محمود کا کہنا تھا کہ این ڈی ایم اے نے ہر قدرتی آفت میں ثابت کیا کہ یہ ایک ناکام ادارہ ہے اور اسکی گزشتہ مینجمینٹ پر کافی کرپشن کے الزامات بھی ہیں مگر کوئی اسکی بات نہیں کرتا۔ یاد رہے کہ اس ادارے کے تمام اہم عہدہ دار کا تعلق پاکستانی افواج سے رہا ہے۔
پاکستانی حکومت کی بیرونِ ملک ساکھ، اور ٹرانسپرینسی کے وعدے
طارق محمود کا کہنا تھا کہ ماضی میں پاکستانی حکومتوں پر کرپشن کے بے تحاشا الزامات لگتے رہے اور اب جب پاکستان کی سب سے بڑی اپوزیشن کی جماعت حکومتی اراکین کو چور چور پکارے گی تو بیرونِ ممالک میں کیا پیغام جائے گا، ان عوامل کی وجہ سے عالمی برادری میں پاکستان کی ساکھ خاصی متاثر ہوئی ہے۔
جب ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا وزیراعظم پاکستان کے بین الاقوامی برادری سے شفافیت کے وعدے پورے ہو سکیں گے تو انکا کہنا تھا کہ حکومت کو نادرا، پی آئی ایس پی اور ریونیو ڈیمپارٹمنٹ کے ڈیٹا کو بنیاد بنا کر ڈسٹرکٹ لیول پر کنٹرول روم بنانے کی ضرورت ہے تاکہ نقصان کا مکمل تخمینہ لگایا جا سکے اور امدادی کوششیں موئثر انداز میں مکمل ہوں اگر ایسا کچھ نہیں ہوتا تو ٹرانسپیرنسی کے وعدے پورے کرنا ممکن نہیں ہوگا۔
انور اقبال کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کرپشن اور نا اہلی کی بات کی جاتی ہے۔اس کے لیے بہتر اورمربوط کوششوں کی ضرورت ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امداد کا شور زیادہ ہے مگر پیسے بہت کم ملے ہیں امریکہ نے 2010 کے سیلاب میں 2 بلین ڈالر دیے اس بار اب تک صرف 56 ملین دیے۔ وزیرِاعظم کے امدادی آڈٹ کے بیانات یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ یہ جانتے ہیں کہ باہر کی حکومتیں پاکستان کی موجودہ حکومت کو کرپشن کے الزامات کی وجہ سے پسند نہیں کرتیں۔ انور اقبال کے مطابق پاکستان کو اس حوالے سے اہم قدم اٹھانے ہوں گے ورنہ دنیا کے ہم پر اعتماد کا مسئلہ ہمیشہ رہے گا۔