پاکستان کے صوبہ سندھ کے بعد پنجاب اور خیبرپختونخوا میں بھی ڈینگی کے مریضوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سیلاب اور بدلتے موسم کے باعث رواں برس ڈینگی کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری جانب مارکیٹ میں درد اور بخار کی ادویات کی قلت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
محکمۂ صحت سندھ کے مطا بق صوبے میں ڈینگی سے متاثرہ افراد کی تعداد پانچ ہزار سے بڑھ چکی ہے جب کہ صرف کراچی میں ڈینگی کے باعث اب تک 27 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
صوبہ سندھ کے بعد خیبرپختونخوا ڈینگی سے متاثرہ دوسرا بڑا صوبہ ہے۔ محکمۂ صحت خیبرپختونخوا کے مطابق صوبے میں ڈینگی سے متاثرہ افراد کی تعداد 7350 ہے جن میں سے 5865 صحت یاب ہو چکے ہیں جب کہ صوبے میں سات افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
پنجاب میں رواں برس اب تک ڈینگی کے 5413 کیس رپورٹ ہوئے ہیں، جن میں سے گزشتہ 24 گھنٹوں میں 373 کیس سامنے آئے ہیں۔ محکمۂ صحت کی جانب سے جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق صوبہ پنجاب میں اب تک ڈینگی بخار سے آٹھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
رواں برس صوبہ بلوچستان سے ڈینگی وائرس کے اَب تک 3324 کیس سامنے آ چکے ہیں۔ ترجمان محکمہ صحت بلوچستان کےمطابق صوبہ بھر میں ڈینگی سے کوئی ہلاکت نہیں ہوئی ہے۔
ماہرینِ صحت سمجھتے ہیں کہ ملک بھرمیں ڈینگی کے خاتمے کے لیے حکومت اور طبی ماہرین کو ہنگامی بنیادوں پر مؤثر اقدامات کرنا ہوں گے۔ اگر صورتِ حال پر قابو نہ پایا گیا تو اس مرض کی شدت میں مزید اضافہ ہو گا۔
وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر رانا اصغر جواد کہتے ہیں کہ ہر سال صوبہ سندھ اور خاص طور پر کراچی میں مون سون کے بعد ڈینگی اور ملیریا کے مریض بڑھ جاتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ صوبہ بھر کے مختلف شہروں میں تاحال حالیہ بارشوں اور سیلاب کے باعث پانی کھڑا ہے جس سے مچھر پیدا ہو رہے ہیں۔
اُن کا کہنا تھاکہ محکمہ صحت سندھ سمیت دیگر صوبوں کے صحت کے محکمے اُس وقت حرکت میں آتے ہیں جب یہ مسئلہ بن جاتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں ایسے معاملات پر طویل المدتی پالیسیاں بنائی جائیں ، تاکہ کسی بھی مرض کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔
ڈاکٹر اصغر کہتے ہیں کہ ڈینگی کی روک تھام کے لیے صوبہ پنجاب میں ایک مؤثر پروگرام وضع کیا گیا تھا جو گزشتہ کچھ عرصے سے زیادہ فعال نہیں ہے۔
سابق ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ پنجاب ڈاکٹر زاہد پرویز کہتے ہیں کہ عام تاثر یہی ہے کہ ڈینگی صاف پانی میں پیدا ہونے والا مچھر ہے۔ لیکن اب یہ بھی شواہد مل رہے ہیں کہ یہ مچھر گندے پانی میں پیدا ہو سکتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ پانی جہاں بھی کھڑا ہو گا وہاں پر ڈینگی مچھر کی افزائش ہو گی۔ وہاں پر مادہ مچھر انڈے دیتی ہے اور انڈوں سے سینکڑوں کی تعداد میں لاروا نکلتا ہے۔ جو سات دِنوں میں ایک بالغ مچھر بن جاتا ہے۔ بالغ مچھر کی عمر دو ہفتوں سے پانچ ہفتوں تک ہوتی ہے۔ اِس دوران مادہ مچھر کم از کم پانچ مرتبہ انڈے دیتی ہے۔ انڈے کلسٹر بناتے ہیں جو سینکڑوں کی تعداد میں ہوتے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ صوبہ سندھ میں حالیہ بارشوں اور سیلاب کا پانی کھڑا ہے۔ جس کے باعث وہاں مچھر کی افزائش بہت ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں لوگ اِس مرض کا شکار ہو رہے ہیں۔
'سندھ حکومت کیا کرے'
ڈاکٹر رانا اصغر جواد کہتے ہیں کہ صوبہ سندھ میں اِس وقت صحیح معنوں میں ڈینگی کی روک تھام کے لیے کوئی مؤثر پروگرام نہیں ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اگر اگست میں ڈینگی وبا کا راستہ روکنا ہو تو اس کے لیے فروری میں تیاریاں اور انتظامات شروع کر دیے جاتے ہیں۔
اُن کے بقول اس مچھر کا سائیکل 14 روز کا ہوتا ہے۔ اگر آج سے اقدامات کیے جائیں تو 14 روز بعد اس کے اثرات سامنے آںا شروع ہو جائیں گے۔
اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ پہلے مرحلے میں لوگوں کا بتایا جائے کہ ڈینگی مچھر گھروں میں پردوں کے پیچھے، صوفوں کے پیچھے، پانی والی جگہوں، گمملوں وغیرہ میں پایا جاتا ہے۔ دوسرے مرحلے میں اِس فیلڈ سے جُڑے ماہر افراد کی خدمات حاصل کی جائیں۔ اُن کے ساتھ مل کر حکمتِ عملی کے تحت صورتِ حال پر قابو پانا چاہیے۔ تیسرے نمبر پر لوگوں کو ڈینگی سے متعلق آگہی دی جائے کہ وہ اپنے طور پر بھی اقدامات کریں۔
ڈاکٹر زاہد پرویز کہتے ہیں کہ سندھ حکومت کو وبا پر قابو پانے کی کوششوں کے بجائے روک تھام پر زیادہ زور دینا چاہیے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جہاں پانی کھڑا ہے اُسے ختم کیا جائے۔ یونین کونسل کی سطح پر نگرانی ہونی چاہیے۔
سندھ کی صوبائی وزیر عذرا فضل پیچوہو کہتی ہیں کہ صوبہ بھر میں پانی اور مچھر کی وجہ سے ڈینگی اور ملیریا کے کیس بڑھ رہے ہیں۔ محکمہ صحت سندھ کے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ بعض افراد ڈینگی سے بچاؤ کے لیے خود سے مختلف ادویات اور ٹوٹکوں سے علاج کر رہے ہیں جو فائدہ دینے کے بجائے نقصان دے رہے ہیں۔
اُن کی جانب سے جاری کیے گئے ایک پیغام میں کہا گیا ہے کہ ڈینگی سے متاثرہ ہر فرد یہ سمجھتا ہے کہ اُسے پلیٹ لیٹس لگائے جائیں جو کہ غلط رجحان ہے۔ صبح اور شام کے اوقات میں شہری گھروں سے باہر جانے سے گریز کریں۔ اگر نکلنا ہو تا اپنے آپ کو مکمل ڈھانپ کر جائیں۔
کمشنر راولپنڈی ڈویژن نورلاامین مینگل جو سنہ دو ہزار گیارہمیں ڈسٹرکٹ کوارڈینیشن آفیسر (ڈی سی او) لاہور تھے بتاتے ہیں کہ سنہ دو ہزار گیاہ میں جب ڈینگی وائرس کے کیس سامنے آناشروع ہوئے تو وبا اِس قدر تیزی سے پھیلی کہ ہزاروں کی تعدادمیں متاثرہ افراد اسپتالوں میں تھے جبکہ تین سو افراد صرف لاہور شہر میں جاں بحق ہوئے تھے۔ جس کو روکنے کا کچھ سمجھ ہی نہیں آیا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سنہ دوہزار بارہ میں پاکستان سے طبی ماہرین تربیت کی غرض سے تھائی لینڈ گئےجبکہ سری لنکا سے طبی ماہرین پاکستان آئے۔ جنہوں نےبتایا کہ ڈینگی کے خلاف مہم کو جنوری میں شروع کرنا پڑتا ہے۔جس میں مچھر کے انڈوں کو سب سے پہلے تلف کرنا ہوتا ہے۔اگر انڈے سے لاروا بن جائے تو اُس لاروے کو ختم کرنا ہے، لاروےسے مچھر نہیں بننے دینا ۔جب مکمل مچھر بن جاتا ہے تو اُسےڈھونڈنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جنوری میں شروع کیجانے والی اپریل تک جاری رہے۔ اس کے بعد صوبہ پنجاب میں موسم گرما کے دوران زیادہ درجہ حرارت کے باعث ڈینگی مچھرختم ہو جاتا ہے۔ جس کے بعد صوبہ میں مون سون بارشوں کوسلسلہ شروع ہوتا تھا۔ جس سے قبل شہریوں کو ایک مہم کےذریعے بتایا جاتا تھا کہ گھر کی چھتوں پر اور دیگر جگہوں پر پانی نہ کھڑا ہونے دیں۔
اُس کے بعد پری وینشن کا کام کیا جاتا تھا۔ نورالاامین مینگل کےمطابق ڈینگی کے خلاف مہم میں تمام سرکاری دفاتر کو شامل کیاجاتا اور ایک بڑے پیمانے پر شہر بھر میں سپرے کرائے گئے۔ جس میں کمیونٹی کو شامل کرنا بہت ضروری ہے۔ جنہیں بتایا گیا ہےڈینگی مچھر سے خاص طور پر بچوں اور بزرگوں کو بچائیں۔
نورالاامین مینگل بتاتے ہیں کہ ڈینگی کے خلاف ایک وقت ایسا آیاتھا کہ جب جہاں لاروا نظر آتا تھا یا ملتا تھا تو اُس جگہ کےمالک کے خلاف مقدمہ درج ہوتا تھا۔ سنہ دو ہزار بارہ میں سات ہزار کے قریب مقدمات درج کیے گئے تھے۔ لوگوں کو مجبور کیا گیا کہ ڈینگی کے خلاف نکلیں۔
جس کے نتائج یہ نکلیں کہ سنہ دو ہزار بارہ میں ڈینگی سے متاثرہ افراد کی تعداد تین سو تھی اور کوئی ہلاکت نہیں ہوئی تھی۔ جوکہ ایک کامیاب مہم تھی۔