ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے ایران میں برسوں میں ہونے والے سب سے بڑے مظاہروں پر پیر کے روزعوامی سطح پر ردِعمل کا اظہار کیا ہے۔انہوں نے اپنی ہفتوں کی خاموشی توڑتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے اور اسے 'فسادات' قرار دیا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے امریکہ اور اسرائیل پر ان مظاہروں کی منصوبہ بندی کا الزام لگایا ہے۔
ایران کی اخلاقی پولیس کی حراست میں ایک نوجوان خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد پیدا ہونے والی بدامنی، حکومت کی جانب سے پکڑ دھکڑ کی کوششوں کے باوجود تیسرے ہفتے بھی جاری ہے۔
پیر کے روز، ایران نے طلبہ اور پولیس کے درمیان گھنٹوں تک جاری رہنے والے اس تعطل کے بعد اپنی اعلیٰ ٹیکنالوجی یونیورسٹی کو بند کر دیا جس نے اس پر وقار ادارے کو مظاہروں کے تازہ ترین فلیش پوائنٹ میں تبدیل کر دیا اور وہاں سینکڑوں نوجوانوں کی گرفتاریاں ہوئیں ۔
آیت اللہ خامنہ ای نےتہران میں پولیس کے زیر تربیت عملے سے خطاب کرتے ہوئےپولیس کی حراست میں 22 سالہ مہسا امینی کی موت کو ایک المناک واقعہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس پر "بہت افسردہ " ہیں۔تاہم انہوں نے حکام کے سابقہ تبصروں کو دہراتے ہوئے ان مظاہروں کو ایران کو غیر مستحکم کرنے کی غیر ملکی سازش قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ ''یہ فسادات منصوبہ بندی کے تحت ہوئے۔ یہ فسادات اور عدم تحفظات امریکہ اور صیہونی حکومت اور ان کے ملازمین نے تیار کیے تھے۔''
علاوہ ازیں تہران میں شریف یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی نے اعلان کیا کہ اتوار کو ہونے والی ہنگامہ آرائی کے بعد اگلے نوٹس تک صرف ڈاکٹریٹ کے طلبہ کو کیمپس آنے کی اجازت ہوگی۔
ادھر عینی شاہدین نے انتقامی کارروائیوں کے ڈرسے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پولیس نے سینکڑوں طلبہ کو کیمپس میں محصور رکھا اور مظاہروں کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا۔
اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن نے کہا کہ سادہ لباس میں ملبوس اہلکاروں نے یونیورسٹی کو چاروں طرف سے گھیر لیا تھا۔ اس دوران کیمپس میں رات گئے ہونے والے احتجاج میں کم از کم 300 طلبہ کو حراست میں لیا گیا۔
ایسوسی ایشن نے کہا کہ سادہ لباس اہل کاروں نے ایک پروفیسر اور یونیورسٹی کے کئی ملازمین کو زدو کوب بھی کیا۔
ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی 'ارنا 'نے پرتشدد مظاہرےکو گھٹا کر بیان کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ 'احتجاجی اجتماع' بغیر کسی جانی نقصان کے ہوا۔ البتہ ایجنسی کا کہنا تھا کہ پولیس نے 30 طلبہ کو حراست سے رہا کردیا ہے۔
ایران میں اس پکڑ دھکڑ نے اندرون اور بیرون ملک رد عمل کو جنم دیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین پیئر نے کہا کہ وائٹ ہاؤس پیر کے روز ایران میں پرامن مظاہروں کے خلاف ایرانی سیکیورٹی فورسز کی کارروائی کی مذمت کرتا ہے۔
انہوں نے صدر جو بائیڈن کے ساتھ پورٹو ریکو جانے والے نامہ نگاروں کو بتایا کہ "ہم سیکیورٹی حکام کی جانب سے یونیورسٹی کے طلبہ کے پرامن احتجاج پر رد عمل میں تشدد اور بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کی اطلاعات سے پریشان اور حیران ہیں۔"
جرمنی کی وزیر خارجہ اینالینا بیربوک نے شریف یونیورسٹی میں حکومت کی طرف سے طاقت کے استعمال کی مذمت کرتے ہوئے اسے "تعلیم اور آزادی کی طاقت پر سراسر خوف کا اظہار" قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ ایرانیوں کی ہمت ناقابل یقین ہے۔
ادھر آیت اللہ خامنہ ای نے مظاہرین کی جانب سے اپنے حجابوں کو پھاڑنے، مساجد، بینکوں اور پولیس کی گاڑیوں کو آگ لگانے کے مناظر کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ'' یہ اقدامات معمولی نہیں بلکہ غیر فطری ہیں۔''
انہوں نے خبردار کیا کہ ''جو لوگ اسلامی جمہوریہ کو سبوتاژ کرنے کے لیے بدامنی کو ہوا دیتے ہیں وہ سخت قانونی چارہ جوئی اور سزا کے مستحق ہیں۔''
ایران کے سرکاری ٹی وی نےرپورٹ کیا کہ مظاہرین اور سیکیورٹی اہل کاروں کے درمیان ہونے والی پرتشدد جھڑپوں میں مرنے والوں کی تعداد 41 تک ہو سکتی ہے۔ انسانی حقوق کے گروپس نے ہلاکتوں کی تعداد زیادہ بتائی ہے۔
لندن میں قائم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ اس نے 52 متاثرین کی شناخت کی ہے۔
اس کے علاوہ بےشمار لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔مقامی حکام نے کہا ہے کہ کم از کم 1500 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔
سیکیورٹی فورسز نے احتجاج کی حمایت کرنے والے فنکاروں اور درجنوں صحافیوں کو بھی پکڑ لیا ہے۔ اتوار کو حکام نے تہران کے معیشت کی رپورٹس شائع کرنے والے ایک اخبار کے رپورٹر البرز نظامی کو گرفتار کیا تھا۔
اس رپورٹ کا موادخبر رساں ادارے ' ایسو سی ایٹڈ پریس' سے لیا گیاہے۔