رسائی کے لنکس

دہلی: ہندو رہنماؤں کی عوامی جلسے میں مسلمانوں کے بائیکاٹ کی مبینہ اپیل، مقدمہ درج


فائل فوٹو
فائل فوٹو

شدت پسند ہندو تنظیم وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) اور دیگر ہندو گروپوں کے زیر اہتمام عوامی جلسے میں وی ایچ پی اور بی جے پی کے رہنماؤں کی متنازع تقاریر میں مبینہ طور پر مسلمانوں کے بائیکاٹ اور ہندوؤں سے ہتھیار اٹھانے کی اپیل کی گئی ہے۔

اتوار کو دہلی میں ہونے والے اس جلسے سے متعلق وشو ہندو پریشد کا دعویٰ ہے کہ اس نے پروگرام کے انعقاد کے لیے پولیس سے اجازت لی تھی جب کہ پولیس نے اس کی تردید کی ہے اور منتظمین کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ تقریروں کی فوٹیج کی تحقیقات ہو رہی ہے جس کے بعد رپورٹ کی بنیاد پر کارروائی کی جائے گی۔قبل ازیں شمال مشرقی دہلی میں 2020 میں فرقہ وارانہ فساد کے سلسلے میں بھی وشو ہندو پریشد کے خلاف رپورٹ درج کی گئی تھی۔

اتوار کو ہونے والے اس جلسے میں تقریر کرتے ہوئےمغربی دہلی سے بی جے پی کے رکن پارلیمان پرویش صاحب سنگھ ورما نے کہا کہ ان کا (مسلمانوں کا) مکمل بائیکاٹ کیجیے۔ نہ تو ان سے کوئی چیز خریدیے اور نہ ہی فروخت کیجیے۔ ان کو مزدوری بھی نہ دیں۔انہوں نے شرکائے جلسہ سے اس سلسلے میں حلف بھی لیا۔

یہ پروگرام شمال مشرقی دہلی کے سندر نگری میں ہفتے کو ایک 25 سالہ شخص منیش کی مبینہ ہلاکت کے بعد احتجاج کے لیے منعقد کیا گیا تھا۔

شمال مشرقی دہلی کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس (ڈی سی پی) سنجے کمار سین کے مطابق اس معاملے میں سندر نگری کے تین مشتبہ افراد اسلم، بلال اور فیضان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ پولیس کو شبہ ہے کہ یہ پرانی رنجش کا معاملہ ہے۔

دہلی سے متصل غازی آباد کے لونی اسمبلی حلقے سے بی جے پی کے رکن اسمبلی نند کشور گوجر نے بھی اس اجتماع میں متنازع تقریر کی۔ جب کہ ایک مذہبی رہنما نول کشور داس نے ہندووں سے اپنے مذہب کے تحفظ کے لیے ہتھیار رکھنے کی اپیل کی۔ ایک دوسرے مذہبی رہنما جگت گرو یوگیشور آچاریہ پر بھی متنازع تقریر کرنے کا الزام ہے۔

تقاریر پر ردّعمل

ان تقریروں پر سخت ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ متعدد ٹوئٹر صارفین نے پرویش ورما کی تقریر پر وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر خارجہ ایس جے شنکر کو ٹیگ کرتے ہوئے ان کے اور دیگر مقررین کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ جب کہ کئی صارفین ان تقریروں کی حمایت بھی کررہے ہیں۔

کانگریس کی ترجمان شمع محمد نے پولیس سے سوال کیا ہے کہ کیا نفرت پھیلانے والے بی جے پی ایم پی کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

انھوں نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ کیا وزیر اعظم مودی اس تقریر کی حمایت کرتے ہیں اور کیا یہی ان کا نعرہ ’سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘ہے۔

کانگریس رہنما شکیل احمد نے بھی متنازع تقریروں کی مذمت کی اور کہا کہ اسی ذہنیت کی وجہ سے ہم لوگ غیر ملکیوں کے غلام بنے تھے۔

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور حیدرآباد سے رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے الزام عائد کیا ہے کہ بی جے پی نے مسلمانوں کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے۔

انھوں نے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ اور ہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجری وال کی خاموشی کی مذمت کی اور کہا کہ اگر ایک حکمراں جماعت کا ایم پی دار الحکومت میں اس قسم کی باتیں کہہ سکتا ہے تو پھر آئین کی کیا اہمیت ہے۔ راشٹریہ لوک دل کے صدر جینت چودھری نے بھی پرویش ورما کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

’ووٹ حاصل کرنے کی کوشش‘

انسانی حقوق کے کارکنوں اور تجزیہ کاروں کی جانب سے بھی مبینہ نفرت انگیزی کی مذمت کی جا رہی ہے۔ سینئر تجزیہ کار اور انسانی حقوق کی کارکن شیبہ اسلم فہمی نے کہا کہ کئی ریاستوں میں اسمبلی انتخابات اور پھر پارلیمانی انتخابات ہونے والے ہیں جس کے پیش نظر اس قسم کی باتیں کی جا رہی ہیں۔


انھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بی جے پی کے پاس کوئی مثبت ایجنڈہ نہیں ہے۔ اس لیے مذہب کے نام پر لوگوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

انھوں نے الزام لگایا کہ یہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول بنا کر اکثریتی طبقے کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پولیس نفرت انگیزی میں ملوث افراد کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی جس کی وجہ سے ایسے واقعات پیش آتے ہیں۔ ان کے مطابق بی جے پی کی معطل ترجمان نوپور شرما کے متنازع بیان پر جب بھارت کو سفارتی بحران کا سامنا کرنا پڑا تب نوپور کو پارٹی سے معطل کیا گیا۔ ان کے خلاف کئی رپورٹس درج ہوئی تھیں لیکن آج تک ان کی گرفتاری نہیں ہوئی ہے۔

شیبہ اسلم فہمی ان باتوں کی تائید کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے وہاں ایسے واقعات زیادہ ہو رہے ہیں۔ کیوں کہ ان لوگوں کو معلوم ہے کہ پولیس ان کے ساتھ ہے۔ وہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرے گی۔

ان کے مطابق ملک میں مذہب کے نام پر نفرت پھیلانے کی کوشش تو پہلے ہی سے ہو رہی تھی اب اسے مزید آگے بڑھایا جا رہا ہے۔

تجزیہ کار نیلم مہاجن سنگھ کا کہنا تھا کہ مبینہ نفرت انگیز تقریر کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جانا چاہیے۔

یاد رہے کہ گزشتہ دنوں گجرات کے کھیڑہ ضلع میں ہندووں کی مذہبی تقریب ’گربا ڈانس‘ میں پتھراو کرنے والے ملزموں کی پولیس کے ہاتھوں سرعام پٹائی کی گئی۔ لیکن تاحال ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔

بعض حلقوں کی جانب سے یہ اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ جوں جوں انتخابات قریب آئیں گے اس سلسلے کو اور تیز کیا جائے گا۔ شیبہ اسلم کا کہنا تھا کہ اگر حکومت چاہتی ہے کہ ایسے واقعات نہ ہوں تو ان لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کرنا ہوگی۔

’جہادیوں کے بائیکاٹ کی اپیل کی‘

ادھر پروگرام کے بعد پرویش ورما نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے کسی مذہبی طبقے کا نام نہیں لیا۔ انھوں نے ایک ہندو نوجوان کی ہلاکت میں ملوث افراد کے اہل خانہ اور جہادیوں کے بائیکاٹ کی اپیل کی تھی۔

اسی طرح بعض دیگر مقررین نے بھی کہا کہ انھوں نے مسلمانوں کے نہیں بلکہ جہادیوں کے بائیکاٹ کی اپیل کی اور ان کے خلاف متحد ہونے کی بات کہی ہے۔

اخبار انڈین ایکسپریس کے مطابق جگت گرو یوگیشور آچاریہ نے میڈیا سے گفتگو میں اپنی ان باتوں کا دفاع کیا کہ ’اگر کوئی ہمارے مندروں کو انگلی دکھائے تو اس کی انگلی نہیں ہاتھ کاٹ دو۔اگر ضرورت پڑے تو ان کا گلا بھی کاٹ دو۔ ان کو چن چن کر ماریں، کیا ہوا پھانسی ہو جائے گی‘۔

اخبار کے مطابق انھوں نے کہا کہ میں ایسی باتیں بار بار کہو ں گا۔ میں اپنے مذہب کے لیے پھانسی پر چڑھنے کے لیے تیار ہوں‘۔

خیال رہے کہ بی جے پی ووٹ کی خاطر مذہبی تفریق پیدا کرنے کے الزام کی تردید کرتی رہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ ترقی کے ایجنڈے اور حکومت کے کام پر ووٹ مانگتی ہے، مذہب کے نام پر نہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG