پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار ان دنوں امریکی دارلحکومت واشنگٹن کے چار روزہ دورے پر ہیں جہاں ان کی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور ورلڈ بینک حکام سے ملاقاتیں متوقع ہیں۔ تجزیہ کاروں کے خیال میں ان ملاقاتوں میں اسحاق ڈار کی کوشش ہوگی کہ وہ ملک میں بجلی اور گیس کی قیمتوں کی مد میں آئی ایم ایف سے کوئی ریلیف حاصل کرسکیں تاکہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کی شرح کو کسی حد تک کنٹرول کرنے میں مدد ملے۔
حالیہ سیلاب کے بعد پاکستان میں طلب اور رسد کے بڑھتے ہوئے فرق کی وجہ سے مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ لیکن کئی ماہرین معیشت کے خیال میں اس ریلیف کے حصول میں کامیابی کے امکانات کم دکھائی دیتے ہیں۔
مہنگائی کی شرح تاریخی ہونے کے بعد کم کیسے ہوئی؟
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں رواں سال اگست کے مہینے میں مہنگائی کی شرح گزشتہ سال اگست کے مہینے سے 27.26 فیصد بڑھی تھی۔ جس کے بعد ستمبر میں یہ شرح کم ہو کر 23.18 فیصد ہو گئی ہے۔ حکام کا کہنا تھا کہ اگست میں ریکارڈ کیا جانے والا اضافہ درحقیقت ملک میں 1973 کے بعد ایک ماہ میں مہنگائی میں ہونے والا سب سے زیادہ اضافہ تھا۔ تاہم ستمبر میں یہ کم ہونا شروع ہوچکی ہے۔ پاکستان کے ادارہ شماریات کے حکام کے مطابق اگست میں مہنگائی میں اضافہ بجلی کی قیمتوں میں بھاری اضافے کی وجہ سے نوٹ کیا گیا تھا جو کہ سالانہ بنیادوں پر 120 فیصد سے بھی زیادہ تھا۔ لیکن بہت سے معاشی حلقوں میں اور عام لوگ اب بھی یہ سوال اٹھارہے ہیں کہ کہ وہ مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی کا شکار ہیں اور انہیں نہیں لگتا کہ مہنگائی میں کوئی خاص کمی واقع ہوئی ہے۔ خاص طور پرغذائی اشیاء کی قیمتیں اب بھی آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔
تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ بعض اقدامات سے مہنگائی میں کمی آنے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ جس کا ثبوت ستمبر میں افراط زر کے کم ہونے والے نمبرز ہیں اور غذائی اشیاء کی قیمتوں میں بھی معمولی کمی دیکھی گئی ہے۔ تجزیہ کار اور کالم نگار علی خضر کا کہنا ہے کہ حکومت نے بجلی پر فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز گزشتہ ماہ واپس لے لیے تھے جس سے مجموعی طور پر ستمبر میں مہنگائی یعنی افراط زر کم دکھائی دے رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بجلی کی قیمت گزشتہ ماہ کے مقابلے میں 31 فیصد کے لگ بھگ کم ہوئی ہے۔ کیونکہ حکومت نے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز لگانے کا فیصلہ واپس لے لیا تھا۔
"بجلی کے بلوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز موخر کرنے سے مہنگائی میں کمی نظر آئی"
کراچی میں مقیم معیشت دان شہریاربٹ نے کہا ہے کہ نئے وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ کرنسی مارکیٹ میں مداخلت کے ساتھ اعداد و شمار میں بھی تکنیکی طور پر جادوگری دکھاتے ہیں۔ تاہم یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ افراط زرمیں 30 فیصد کمی دیکھی گئی ہے جس کی وجہ سے ملک میں مجموعی مہنگائی کی شرح میں کمی دیکھی گئی۔ لیکن حکومت نے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کو منسوخ کرنے کے بجائےموخرکیا ہے ۔ اس لئے ابھی نیپرا حکام نے یہ طے کرنا ہے کہ اگست اور ستمبر میں فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کو کیسے اور کب وصول کیا جانا ہے۔
سست شرح نمو، مزید مہنگائی اور غربت بڑھنے کے اندیشے: عالمی بینک کی رپورٹ
دوسری جانب عالمی بینک کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق جون 2023 کو ختم ہونے والے رواں مالی سال میں پاکستان کی معیشت کی شرح نموصرف 2 فیصد رہنے کی توقع ہے جب کہ تباہ کن سیلابوں کی وجہ سے مہنگائی میں مزید اضافہ بھی متوقع ہے۔
بینک کی رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ حالیہ سیلاب کے تناظر میں سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں غربت مزید بڑھنے کا امکان ہے۔ ابتدائی تخمینے بتاتے ہیں کہ غریبوں کی مدد کے لیے فیصلہ کن امداد اور بحالی کی کوششوں کے بغیر قومی غربت کی شرح 2.5 سے 4 فیصد تک بڑھ سکتی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ 58 لاکھ سے 90 لاکھ مزید لوگ غربت کی لکیر سے نیچے جاسکتے ہیں۔ اس طرح میکرو اکنامک خطرات بھی زیادہ ہیں کیونکہ پاکستان کو جاری کھاتوں کے بڑے خسارے، بلند قرضوں اور اپنی روایتی برآمدی منڈیوں سے کم مانگ کے چیلنجز کا سامنا ہے جس کی وجہ عالمی سطح پر اس وقت شرح نمو میں کمی واقع ہونا ہے۔
علی خضر کے مطابق عالمی بینک کی رپورٹ اور پھرحال ہی میں سامنے آنے والے اعداد و شمار جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیرون ملک سے آنے والے ترسیلات زر میں کمی واقع ہونا معیشت کے لئے آنے والے مہینوں میں بھی اچھے حالات ظاہر نہیں کرتے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کے سامنے معاشی چیلنجز کی ایک بڑی فہرست ہے جس سے نمٹنے کے لئے مربوط حکمت عملی درکار ہے۔
شہریار بٹ کا موقف ہے کہ آنے والے دنوں میں اس بات پر انحصار بھی ہوگا کہ عالمی منڈی میں اجناس کی قیمتیں کس حد تک کم یا کم از کم مستحکم رہتی ہیں۔ کئی اجناس کی قیمتیں کم تو ہوئی ہیں لیکن ہمارا بہت بڑا انحصار تیل پر ہے۔ تیل پیدا کرنے والے ممالک کی جانب سے پیداوار کم ہونے کے بعد قیمتیں بڑھی ہیں، لیکن اگر یہ قیمتیں 70اور 75 ڈالر فی بیرل کے درمیان رہتی ہں تو پھر بجلی کی قیمتیں کم ہونے کا امکان ہے۔ اور اس سے معیشت کو کوئی بہتر خبریں مل سکتی ہیں۔
شہریار بٹ کے مطابق دوسری جانب اگروزیر خزانہ اسحاق ڈار بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے بجلی اور گیس کی قیمتیں کم کرانے میں کوئی رعایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تواس سے عوام کو کسی حد تک ریلیف مل سکتا ہے لیکن اس کے امکانات معدوم دکھائی دیتے ہیں۔
"مہنگائی کے زیادہ ستائے شہریوں کو تحفظ دینے کے لئے ٹارگٹڈ سبسسڈی دینا ہوگی"
عالمی بینک کے مطابق سیلاب کے اثرات کو کم کرنے کے لیے امدادی اقدامات کی ضرورت تو ہے لیکن اس بات کو یقینی بنانا بہت ضروری ہوگا کہ اس امداد کو زیادہ ضرورت مندوں کی جانب منتقل کیا جائے۔ بینک نے رپورٹ میں مزید کہا ہے کہ پاکستان نے پہلے ہی توانائی پرعوام کو بڑی سبسڈی دی تھی لیکن تجزئیے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے اقدامات غیرمتناسب طور پران گھرانوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں جن کی آمدن پہلے ہی بہترہوتی ہے۔ جبکہ اس عمل سے خزانے پرغیرمعمولی مالی اخراجات کا بوجھ پڑے گا۔ حکومت کی بہتر معاشی پالیسیوں کے ذریعے مہنگائی پر قابو پانا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ اس کے ساتھ بڑھتی ہوئی قیمتوں سے زیادہ متاثر ہونے والوں کو ٹارگٹڈ ریلیف فراہم کرنے کے لئے اقدامات کرنا ہونگے۔ جس میں توسیع شدہ سماجی تحفظ کے پروگراموں کے علاوہ تجارت اور پیداواری صلاحیت بڑھانےکی حوصلہ شکنی کرنے والے بگاڑ کو دور کرنا ممکن بنانا ہوگا۔