واشنگٹن ڈی سی۔کیا آپ آج کے زمانے میں بھی ملک اور معاشرے میں سدھار لانے کے خواہش مند کسی مخلص استاد کو جانتے ہیں؟ ۔۔اگر ہاں، تو اپنے سب سے اچھے استاد کے بارے میں چندجملے ہماری سوشل میڈیا پیجز پر ہماری اس پاڈ کاسٹ کے نیچے کمنٹس میں ضرور شئیر کیجئے گا۔ لیکن اس سے پہلے ہماری اس ہفتے کی پاڈ کاسٹ ’کل اور آج ‘ میں ملاقات کیجئے سلمان آصف صدیقی سے ۔
سلمان آصف صدیقی سے میراپہلا تعارف کووڈ وبا کے دوران سوشل میڈیا پلیٹ فارمزپر ان کی دلچسپ اور متاثر کن گفتگو سن کر ہوا۔ والدین اور بچوں کے تعلق اور تربیت کے حوالے سے سلمان آصف صدیقی کی پر اثر گفتگو کے کئی کلپس ان کے ادارے ای آر ڈی سی یعنی ایجوکیشنل ریسورس ڈیولپمنٹ سینٹر کے یو ٹیوب ، انسٹا گرام اور دیگر سوشل میڈیا چینلز پر سنے اور دیکھے جا سکتے ہیں ۔
ان کے سوشل میڈیا فالوورز میں ایک بڑا اضافہ کووڈ وبا کے دوران ہوا ، جب ان کے لیکچرز نے دنیا کے کونے کونے سے اردو سمجھنے اور بولنے والے والدین اور اساتذہ کو بچوں کی تعلیم اور تربیت سے متعلق کچھ اچھی باتیں سیکھنے کے لئے ان کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو سبسکرائب کرنے پر مجبور کر دیا۔ ان فالوورز میں پاکستان کے ہمسایہ ملکوں میں اردو ، ہندی سمجھنےوالے افراد بھی شامل ہیں۔
سلمان آصف صدیقی پاکستان میں قائم ایک غیر سرکاری تعلیمی ادارے ایجو کیشنل ریسورس ڈویلپمنٹ سنٹر کے بانی اور ڈائریکٹر ہیں ۔ یہ سنٹر پاکستان میںوالدین اور اساتذہ کی تربیت اور ان کے لئے رہنما موادتیار کرنے یا میٹیریل ڈویلپمنٹ کا ادارہ ہے۔ یہ تربیت کیا ہے اور کس قسم کے تربیتی مواد اور لٹریچر کی تیاری اس سینٹر کے ذریعے کی جاتی ہے ؟۔۔ وہ بچوں کے لئے جس نیچرل یا قدرتی لرننگ کی بات کرتے ہیں ، اس کا مقصد کیا ہے؟ ۔
سلمان آصف صدیقی اپنے نرم، محتاط اور نپے تلے انداز میں کہنے لگے کہ ’’ نیچرل لرننگ بہت سادہ تصور ہے ۔ اس کا تجربہ ہم سب نے اپنے بچپن میں کیا ہے ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ سیکھنا ایک فطری عمل ہے ۔ ایک ایسا عمل جو سانس لینے کی طرح ہےاور اس میں بچے کے لئے ایک ایسا مناسب ماحول بنانے کی ضرورت ہے جہاں وہ اپنے تجربے سے سیکھ سکے۔ بچہ سب کچھ قدرتی طور پر سیکھنا چاہتا ہے کیونکہ اس کے اندر بے پناہ تجسس ہوتا ہے ‘‘۔
سلمان آصف صدیقی پاکستان کے موجودہ تعلیمی نظام کے ناقد ہیں۔ان کے بقول، ہر گھر بچوں کے لئے سیکھنے کا گہوارہ ہو تا ہے جہاں بچوں کو غیر مشروط طور پر قبول کیا جانا چاہئے ۔
’’بچے علم دوست اور انسان دوست ہوتے ہیں جو اپنے گردوپیش سے بہت کچھ سیکھتے ہیں ۔ بچے سوال کرتے ہیں ۔ مختلف تجربے کرتے ہیں کیونکہ سیکھنے کی جستجو ان میں موجود ہوتی ہے ۔ اور یہی فطری عمل ہے اس لئے ہمارے تدریسی نظام کو اس فطری عمل میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے بلکہ بچے کے لئے سیکھنے کے بہتر مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔اور استاد کی ضرورت اس وقت ہوتی ہے جب بچہ خود مشورے اورتعلیمی رہنمائی کی ضرورت محسوس کرے‘‘
سلمان آصف صدیقی نے ایجوکیشنل سائیکالوجی میں سپیشلائز کیا ہے اور انہوں نے دنیا بھر میں تعلیم کے بہترین نظاموں کا جائزہ لیا ہے ۔تعلیمی شعبے میں اپنے ستائیس سالہ کیرئیر میں انہوں نے استاد ، ٹرینر، کونسلر ، ادیب اور ایڈیٹر کے طور پر ذمے داریاں نبھائی ہیں ۔ انہوں نے بچوں اورٹیچرز کے کورسز سے متعلق چالیس کتابیں تحریر کی ہیں جو پاکستان اور بیرون ملک پڑھائی جاتی ہیں ۔
تعلیمی شعبے میں ان کی اہم خدمات میں سے ایک نمایاں اور ممتاز کوشش ’’ بچوں کو تسلیم کرنے کا منشور ‘‘ ہے جس کا مقصد ہر بچے کے لئے توہین سے مبرا تعلیم دینا ہے یعنی کسی کمی یا خامی پر بچے کی تذلیل نہ کی جائے ۔
سلمان صدیقی کہتے ہیں کہ بچوں کو اہمیت دینے کی ضرورت ہے ۔ ’’ ہر بچے کی عزت نفس غیر مشروط طور پر تسلیم کی جانا چاہئے۔ اس کا خیال رکھا جائے ۔ اس سے محبت کی جائے اور اس کی صلاحیتوں پر شک کرنے سے گریز کیا جائے ۔ اسے ہم ’’بچوں کو تسلیم کرنے کا منشور‘‘ کہتے ہیں اور ہماری کوشش یہ ہے کہ اپنے پروگراموں کے ذریعے تعلیمی اداروں , اساتذہ, والدین اور علما تک اپنی بات پہنچائیں اور اس کےمثبت نتائج بھی سامنے آئے ہیں‘‘۔
سلمان کا کہنا ہے کہ انہیں کسی ایسے شخص سے واسطہ نہیں پڑا جس نے ایسی کوششوں کو مسترد کیا ہو ۔لیکن زبردستی کا جو تصور رائج ہے اس سے باہر نکلنا ذرا دشوار ہو تا ہے والدین کے لئے، کیونکہ والدین بھی بچوں کو اپنی مرضی کے تابع رکھنا چاہتے ہیں تو تحکمانہ مزاج کی دشواری سامنے رہتی ہے۔
سلمان آصف صدیقی کو حکومت پاکستان کی طرف سے ’’پروفیشنل ایکسیلینس‘‘ کا ایوارڈ بھی مل چکا ہے اور وہ ٹیلی ویژن چینلز پر بھی اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں ۔۔میں نے ان سے پوچھا کہ پاکستان کے موجودہ نظام تعلیم میں دو بڑی خامیاں کیا ہیں جنہیں دور کرکےتعلیمی نظام کو بہتر بنایا جا سکے؟ ۔۔۔
سلمان صدیقی کہنے لگے۔۔۔’’ تعلیمی نظام میں میرے نزدیک اصولی سطح پر دو بڑی خامیاں ہیں ۔ ایک تو ہمارے معاشرے میں بچوں کی صلاحیتوں پر فخر یا ناز کرنے کااحساس پیدا نہیں ہو رہا، اور دوسرا ہمارا نظام انسان کو ایک بلند تر سطح پر پہنچنے میں اعانت نہیں کر رہا۔ تعلیم کا ایک بڑا فرض یہ ہے کہ لوگوں میں اپنی ذات پر اعتماد پیدا کیا جائے اور ان کےتخلیقی جوہر کو پہچاننے اور اسے مثبت انداز میں بروئے کار لانے کا انتظام کیا جائے‘
سلمان صدیقی پاکستان کے امتحانی طریق کار میں تبدیلی لانے کی بات کرتے ہیں کیونکہ ان کے بقول، موجودہ امتحانی طریقہ کار میں بچوں کی ذہانت اوردیگر صلاحیتوں کی جانچ ہونا ممکن نہیں ۔ وہ مضامین میں ہم آہنگی پیدا کرنے اور بچوں کو ان کی مادری زبان میں تعلیم دینے کی بھی زبردست حامی ہیں۔
سلمان آصف صدیقی کا تعلق کسی نہ کسی حوالے سے پاکستان کے اہم تعلیمی اداروں سے رہا ہے ۔ تدریسی شعبے میں گذشتہ چند دہائیوں میں ہونے والا ارتقائی عمل بھی ان کے سامنے ہے ۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اب تک پاکستان کی اہم یونیورسٹیوں میں سے اکثر بین الاقوامی سطح پر اپنا نام پیدا نہیں کر سکیں؟
سلمان آصف صدیقی کہنے لگے، کہ ہمارے تعلیمی ادارے اب تک بین الاقوامی سطح پر اپنی ساکھ نہیں بنا پائے ، ہمارے اداروں نےعالمی اداروں میں اپنے لئے اعتماد پیدا نہیں کیا۔ پھر اعلی سطح پر تحقیقی کام کی ضرورت ہے جو ہو نہیں رہا۔ ہمارا معیار زندگی تو بہتر ہو رہا ہے لیکن ہمارا تصور زندگی بہتر نہیں ہو رہا۔ تصور زندگی کو بہتر بنانے والی تعلیم اور تصور انسان کی اصلاح کرنے والی تعلیم معاشرے میں بڑے نتائج پیدا کرتی ہے ‘‘
میرا سوال تھا کہ متاثر کن انداز میں اپنی بات دوسروں کو سمجھانے اورسننے والوں کی سوچ میں تحریک پیدا کرنے کے لئے استاد کے پاس بہترین طریقہ کیا ہونا چاہئے ؟
سلمان صدیقی کا جواب تھا کہ اس کے لئے میڈیا کے تمام اداروں کو مؤثر انداز میں اہم موضوعات پر بات کرتے رہنا چاہئے ۔ کمیونیکیشن یا ابلاغ کا بہترین طریقہ یقین اور خلوص کے ساتھ اظہار خیال ہے، دل سے نکلنے والی بات میں اثر ہوتا ہے، دوسروں کی خیرخواہی کو مدنظر رکھتے ہوئے کی جانے والی بات پر اثر ہوتی ہے ۔
سلمان آصف صدیقی نے ، سوشل میڈیا اور اس کے مثبت اورمنفی پہلوؤں پر بھی بات کی ۔ میرے ساتھ ان کی گفتگو پر مبنی یہ پوڈ کاسٹ سننے کے لئے اس مضمون میں اوپر دیئے گئے سب سے پہلے لنک پر کلک کیجئے ۔
آپ ہمیں یہ بھی بتایئے کہ آپ کو سلمان آصف صدیقی جیسے استاد سے ملاقات کیسی لگی؟ ۔جو امتحانات کا قائل نہیں اور بچوں کی عزت نفس کو اہمیت دینے کا قائل ہے؟۔۔کیا آپ بھی معاشرے میں سدھار لانے کے خواہش مند کسی مخلص استاد کو جانتے ہیں؟ ۔۔اگر ہاں، تو اپنے سب سے اچھے استاد کے بارے میں چندجملے ہماری سوشل میڈیا پیجز پر ہماری اس پاڈ کاسٹ کے نیچے کمنٹس میں شئیر کیجئے۔ ہمیں آپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔