کینیا میں 23 اکتوبر کو انتہائی پراسرار حالات میں ہلاک ہونے والے پاکستانی صحافی اور اینکر پرسن ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات میں اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔ ادھر دو رکنی پاکستانی تحقیقاتی ٹیم کینیا پہنچ چکی ہے جہاں ٹیم نے حکام سے ابتدائی ملاقات بھی کی ہے۔
اس قتل پر جہاں کئی سوالات اٹھ رہے ہیں وہیں یہ سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ آخر کینیا میں ارشد شریف کے میزبان وقار احمد اور خرم احمد کون تھے اور وہ کیا کرتے ہیں؟ اور قتل کی تفتیش میں ان سے اب تک کیا معلومات پولیس نے حاصل کی ہیں؟
اس بارے میں وائس آف امریکہ کو پاکستان میں ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وقار احمد اور خرم احمد دونوں بھائی ہیں اور وہ کافی عرصے سے کینیا ہی میں رہائش پذیر ہیں اور وہاں کی شہریت بھی اُن کے پاس ہے۔
ذرائع کے مطابق ان کا کینیا سے لے کر امریکہ تک وسیع کاروبار ہے اور وہ وہاں ایک بڑے ریزورٹ، جس میں بڑا فارم ہاؤس اور شوٹنگ رینج کے بھی مالک ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی ہٹس اینڈ ہومز نامی کمپنی کینیا میں تعمیرات کے شعبے سے بھی وابستہ ہے۔
یہ دونوں بھائی اسلحے کے بڑے ڈیلرز بھی ہیں اور ان کی کمپنی کا تیار کردہ اسلحہ امریکہ میں خاصا مقبول ہے۔ ان کی کمپنی کینیا کی فورسز کو بھی اسلحہ سپلائی کرتی ہے۔
دونوں بھائیوں کا بچپن کراچی میں گزرا جہاں ان کا گھر ناظم آباد میں تھا۔ اس کے بعد وہ کچھ عرصہ قبل کینیا شفٹ ہوگئے تھے جہاں انہوں نے اپنے کاروبار کی بنیاد رکھی۔
ان کا ایک گھر اب کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس کے خیابان مسلم پر واقع ہے جب کہ ایک اور رہائش گاہ لاہور میں بھی ہے۔ ان کے والد افضل احمد کراچی والے گھر میں مقیم تھے جو دو روز قبل خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ کسی نامعلوم مقام پر منتقل ہوگئے ہیں اور اب گھر پر صرف چوکیدار موجود ہے۔
ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ ارشد شریف اگست میں پشاور سے دبئی اور پھر مختصر قیام کے بعد ویزہ کی میعاد ختم ہونے پر وہاں سے کینیا چلے گئے تھے جس کا ذکر انہوں نے اپنی فیملی اور قریبی دوستوں کے علاوہ کسی سے نہیں کیا تھا جب کہ وہ برطانیہ میں رجسٹرڈ وٹس ایپ نمبر سے رابطہ کرتے تھے۔
لیکن اس کے برعکس وہ ایک ماہ سے بھی زائد عرصے سے انہی بھائیوں کی میزبانی میں کینیا ہی میں مقیم تھے جو ارشد کے اچھے دوست کہلائے جاتے ہیں۔
ہلاکت سے قبل ارشد شریف انہی بھائیوں کے " ایموڈمپ کیمپ " میں موجود تھے جو دارالحکومت نیروبی سے تقریباً 61 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ جب کہ جس گاڑی پر دونوں قتل کی رات کو سفر کررہے تھے وہ بھی خرم احمد ہی کے نام پر کینیا میں رجسٹرڈ ہے۔
'پولیس کی کہانی میں تضاد موجود؛ پاکستانی میزبانوں سے بھی تفتیش ہوسکتی ہے'
نیروبی میں مقیم وائس آف امریکہ کے نمائندے محمد یوسف کا کہنا ہے کہ ہلاکت کی تحقیقات میں فی الحال کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ اُن کے بقول پولیس کے بیانات میں تضاد ہے جس کی وجہ سے یہ معاملہ پیچیدہ ہو رہا ہے۔
محمد یوسف کہتے ہیں کہ یہ سوال بھی اُٹھائے جا رہے ہیں کہ آیا یہ ہلاکت واقعی پولیس فائرنگ سے ہی ہوئی ہے یا گولی چلانے والا کوئی اور تھا؟
خیال رہے کہ کینیا کی پولیس نے ارشد شریف کی ہلاکت پر ایک بیان جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ وہ شناخت میں غلطی کی وجہ سے پولیس کی فائرنگ کا نشانہ بنے۔
صحافی محمد یوسف نے مزید بتایا کہ کینیا کی حکومت نے باہمی معاہدے کے تحت پاکستانی ٹیم کو بھی تحقیقات میں شامل ہونے کی اجازت دی ہے۔
لیکن اُن کے بقول کینیا کی پولیس کے مبہم سرکاری مؤقف اور پاکستانی حکومت پر بڑھتے دباؤ کے باعث اس معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے مطالبات میں شدت آ رہی ہے۔
محمد یوسف کا کہنا تھا کہ جائے وقوعہ پر اب پولیس موجود نہیں، یوں واقعاتی شواہد کے لیے پاکستانی تحقیقاتی ٹیم کو کینیا کی پولیس ہی کی رپورٹس پر انحصار کرنا ہوگا۔
اُن کے بقول خود کینیا کی پولیس نے اب تفتیش کا دائرہ کار بڑھایا ہے اور اس بارے میں تحقیقات ہو رہی ہیں کہ ارشد شریف کہاں ٹھہرے ہوئے تھے اور اس حوالے سے آنے والے دنوں میں ان کے پاکستانی میزبانوں سے بھی پوچھ گچھ ہوسکتی ہے۔
'ارشد شریف نے پاکستان میں رہتے ہوئے اپنی جان کو خطرہ ظاہر کیا تھا'
پاکستان کی سینیٹ کے سابق رُکن سینیٹر انور بیگ، ارشد شریف کے انتہائی قریبی دوست بتائے جاتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ واقعے سے کچھ گھنٹے قبل ان کی ارشد سے بات چیت ہوئی تھی جس میں وہ مطمئن دکھائی دیتے تھے۔ لیکن بات چیت کے دوران ہی انہوں نے بتایا کہ وہ کچھ دیر میں انہیں کال بیک کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انور بیگ کا کہنا تھا کہ میں نے انہیں دوبارہ پیغام بھیجا کہ پاکستان میں رات گہری ہوچکی ہے، اس لیے وہ صبح میں بات کرلیں گے۔ لیکن انور بیگ کے مطابق یہ پیغام ارشد کو وٹس ایپ پرڈلیور نہیں ہوا اور پھر صبح چار بجے کے قریب انہیں اطلاع ملی کہ ارشد کو قتل کردیا گیا ہے۔
انور بیگ کے مطابق ارشد شریف نے اپنی جان سے متعلق خطرات کو ان سے شئیر کیا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ ان خطرات سے دور رہنے کے لیے وہ کچھ عرصہ ملک سے باہر چلے جائیں۔
ارشد شریف کے قتل پر پاکستان میں یہ سوالات بھی اٹھ رہے ہیں کہ وہ کون سے عوامل تھے جن کی بنا پر ارشد شریف ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے۔ اور ملک چھوڑنے سے قبل ان کے خلاف غداری اور بغاوت کی دفعات کے تحت 16 مختلف مقدمات کس کے حکم پر درج کیے گئے؟
اس حوالے سے افواجِ پاکستان کے ترجمان اور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل ندیم انجم نے جمعرات کو مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات میں اے آر وائی نیوز کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) سلمان اقبال کو بھی شامل تفتیش کیا جائے اور انہیں وطن واپس لایا جائے۔
فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اس کیس میں یہ جاننا ضروری ہے کہ ارشد شریف کے قیام و طعام کا انتظام کون کر رہا تھا۔ کینیا میں وہ کیوں خود کو محفوظ سمجھ رہے تھے جب کہ ان کی میزبانی کس نے کی اور ان کا پاکستان میں کس کس سے رابطہ تھا؟ دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ واقعی شناخت کی غلطی تھی یا ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ تھا۔