مقتول صحافی ارشد شریف کی اسلام آباد کی فیصل مسجد میں نمازِ جنازہ کے بعد اسلام آباد کے ایچ الیون قبرستان میں تدفین کردی گئی ہے۔فیصل مسجد میں ہونے والے جنازے میں کثیر تعداد میں لوگ شریک ہوئے جس میں ارشد شریف کے اہل خانہ، صحافی، سیاسی رہنماء اور عام شہری شامل ہوئے۔
جنازے میں شریک ارشد شریف کے ساتھی صحافیوں کا کہنا تھا کہ ان کا ملک سے جانا اور اس انداز میں موت کا واقع ہونا ان کے لیے ناقابل یقین اور تکلیف دہ ہے۔
جمعرات کی صبح ارشد شریف کی میت اسپتال سے اسلام آباد میں ان کی رہائشگاہ پہنچا دی گئی تھی جہاں سے دن دو بجے کے قریب جنازہ ادا کرنے کے لیے اسے فیصل مسجد لایا گیا۔
فیصل مسجد کے احاطے میں لوگوں کی بڑی تعداد جمع تھی ۔ کسی پاکستانی صحافی کے جنازے میں اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔
مقتول صحافی کی میت فیصل مسجد پہنچنے سے قبل ہی عوام کی ایک بڑی تعداد فیصل مسجد کے احاطے میں پہنچ چکی تھی جن میں بعض افراد نے ارشد شریف کی تصاویر بھی اٹھا رکھی تھیں۔
سہ پہر ایک بجے کے قریب جب میں فیصل مسجد پہنچا تو وہاں بعض صحافی دوستوں کے علاوہ زیادہ تر عام لوگ تھے اور لوگوں کے اس ہجوم میں ارشد شریف کی ہلاکت کے حوالے سے مختلف چہ مگوئیوں اور قیاس آرائیوں کی بھنک بھی کانوں میں پڑ رہی تھی۔
کوئی کہہ رہا تھا کہ ارشد شریف کا قتل ایک بڑا المیہ ہے تو کوئی اسے سازش قرار دے رہا تھا۔ وہیں کوئی یہ پوچھ رہا تھا کہ جنازے میں شریک اتنی بڑی تعداد کا کیا پیغام جائے گا؟
جنازے سے قبل ہونے والی پاکستان فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار اور ڈی جی آئی ایس آئی ندیم انجم کی پریس کانفرنس کا بھی تذکرہ ہورہا تھا۔
اے آر وائی کے صحافی دوست خاص طور پر اس خدشے کا اظہار کر رہے تھے آج کی ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کے بعد ان کے چینل کے حالات مزید خراب ہوں گے۔
جنازے کے اختتام کے بعد بعض شرکا چھوٹے چھوٹے گروپس میں تقسیم ہوگئے اور نعرے بازی کرتے رہے۔ ان نعروں میں میں فوج کے حوالے سے بعض قابل اعتراض نعرے بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ ’ارشد تیرے خون سے انقلاب آئے گا‘ اور ’عمران خان زندہ باد‘ کے نعرے بھی لگتے رہے۔
بعض صحافی یہ بھی کہہ رہے تھے کہ ارشد شریف کی المناک موت اور جنازے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔
جنازے میں بڑی تعداد میں عوام کی شرکت پر بعض صحافیوں کی رائے تھی کہ ارشد شریف کی المناک موت کے علاوہ سیاسی تقسیم کا ماحول بھی اس کا سبب ہے۔
صحافیوں کی گفتگو کا مرکزی نقطہ یہی تھا کہ پاکستان میں سیاسی تقسیم کے ماحول نے ارشد شریف کے جنازے کو اہم بنا دیا اور یہی وجہ ہے کہ فیصل مسجد کے احاطے میں صحافیوں سے کہیں زیادہ سیاسی کارکن موجود تھے۔
خیال رہے کہ ارشد شریف کو عمران خان کا حامی صحافی سمجھا جاتا تھا۔ ارشد شریف رواں برس عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد اسٹیبلشمنٹ پر سخت تنقید کررہے تھے۔ ان پر کئی مقدمات بھی درج کیے گئے تھے اور عمران خان انہیں آزاد اور بہادر صحافی قرار دیا کرتے تھے۔
عمران خان نے ارشد شریف کے قتل کے بعد یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ انہوں نے ہی ارشد شریف کی جان کو لاحق خطرات کی وجہ سے انہیں ملک سے چھوڑنے کا مشورہ دیا تھا۔
فوج کے ترجمان نے بدھ کو کہا ہے کہ اس بات کی تحقیقات ہونی چاہیں کہ کس نے ارشد شریف کو کینیا جانے پر آمادہ کیا اور وہاں ان کی رہائش کا بندوبست کیا۔
صحافیوں کی ملک گیر تنظیم پاکستان یونین آف جرنلسٹ (پی ایف یو جے) کے صدر افضل بٹ سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ تمام صحافتی برادری ارشد شریف کے قتل کا سراغ لگانے اور قاتلوں کو سزا دینے کا مطالبہ کرتی ہے۔
جنازے کے بعد ارشد شریف کی میت کو ایمبولینس کے ذریعے عوام کے ہجوم میں فیصل مسجد سے تدفین کے لیے ایچ الیون قبرستان لایا گیا جہاں ان کے والد اور بھائی کی قبریں بھی ہیں۔ پاکستان کے پرچم میں لپٹی ارشد شریف کی میت کو سپرد خاک کرتے وقت رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے۔