امریکہ میں منگل آٹھ نومبر کو ہونے والے وسط مدتی انتخابات پر سب کی نظریں ہیں۔ ماہرین ان انتخابا ت میں ٹرن آؤٹ زیادہ ہونے کا امکان ظاہر کر رہے ہیں۔ ٰیہ انتخابات اس بات کا بھی تعین کریں گے کہ ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ میں کس پارٹی کو برتری ملے گی۔
ان انتخابات میں کئی ریاستوں کے دستور ساز ایوانوں کے ارکان اور انتطامی عہدے داران کا بھی انتخاب کیا جائے گا۔
امریکہ میں وسط مدتی انتخابات میں عام طور پر ٹرن آؤٹ کم رہتا ہے لیکن تھنک ٹینک' پیو ریسرچ سینٹر' کی ایک حالیہ سروے رپورٹ کے مطابق 36 فی صد ووٹرز نے وسط مدتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لیے "سنجیدگی سے غور" کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس بار بھی انتخابات میں عمر رسیدہ افراد اور سفید فام سب سے زیادہ ووٹ ڈالیں گے۔
پیو کے اعداد وشمار کے مطابق 65 برس یا اس سے بڑ ی عمر کے افراد کی نصف سے زیادہ تعداد سنجیدگی سے ووٹ ڈالنے کے ارادے کا اظہار کر رہی ہے۔ اس کے برعکس 18 سے 29 برس کی عمر کے ووٹرز میں سےصرف 20 فی صد نے ووٹ ڈالنے میں دلچسپی ظاہر کی۔
اسی طرح 40 فی صد سفید فام رائے دہندگان نے کہا کہ وہ سنجیدگی سے ووٹ ڈالنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں جب کہ ہسپانوی ووٹرز کی 30 فی صد، سیاہ فام ووٹرز کی 27 فی صد اور 17 فی صد ایشیائی ووٹرز نے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔
آمدن اور تعلیم اہم فیکٹر
انتخاب میں دلچسپی لینے کا تعلق رائے دہندگان کے تعلیمی پس منظر اور مالی حیثیت سے بھی ہے۔
پیو کے ڈیٹا کے مطابق مڈ ٹرم انتخابات میں سب سے زیادہ دلچسپی ایڈوانس کالج ڈگری کے طلبہ نے ظاہر کی ہے۔ سروے میں شامل ان طلبہ میں سے 40 فی صد نے ووٹ ڈالنے کا ارادہ ظاہر کیا۔
گریجویٹس میں یہ شرح 34 فی صد تھی اور گریجو یشن سے زائد تعلیم حاصل کرنے والوں میں 40 فی صد نے ووٹ ڈالنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ ہائی اسکول ڈپلومہ تک تعلیم حاصل کرنے والوں میں یہ شرح سب سے کم یعنی 32 فی صد ہے۔
سروے رپورٹ کے مطابق مال دار امریکی اوسطاً ووٹ ڈالنے کے زیادہ خواہاں نظر آئے۔
امریکہ کی مردم شماری کے ڈیٹا کے مطابق ڈیڑھ لاکھ ڈالر سالانہ آمدن رکھنے والے گھرانوں میں 2020 کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی شرح 85 فی صد رہی۔ جب کہ50 سے 74 ہزار ڈالر آمدن رکھنے والوں میں یہ شرح 72 فی صد اور 15 ہزار سے 20 ہزار کے درمیان آمدن رکھنے والے گھرانوں میں ووٹ ڈالے کی شرح 50 فی صد رہی۔
ڈیموکریٹس اور ری پبلکنز کی پوزیشن
امریکہ میں گزشتہ برس سے میڈیا کی سرخیوں میں کئی ایشوز کو وسط مدتی انتخاب کے لیے اہم قرار دیا جارہا ہے۔ لیکن اس وقت اقتصادی حالات کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ پیو کے سروے کے مطابق 77 فی صد امریکیوں کے نزدیک معیشت اہم ترین مسئلہ ہے۔
امریکہ میں افراطِ زر کی شرح 8 فی صد تک پہنچ چکی ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور مالی مشکلات کے اس ماحول میں امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ وسط مدتی انتخاب میں ووٹر معاشی مسائل کی جانب زیادہ متوجہ ہوں گے۔
انتخابات سے قبل پیدا ہونےو الے معاشی حالات کو ڈیموکریٹک پارٹی کے لیے ساز گار خیال نہیں کیا جارہا ہے جسے کانگریس کے دونوں ایوانوں میں برتری حاصل ہے۔
وسط مدتی انتخابات میں یہ روایت رہی ہے کہ حکمران جماعت کی نشستیں کانگریس میں کم ہو جاتی ہیں۔ کانگریس میں پہلےڈیموکریٹک اور ری پبلکن پارٹیوں کی نشستوں کی تعداد میں زیادہ بڑا فرق نہیں ہے۔ اس لیے ری پبلکن توقع کررہے ہیں کہ موجودہ حالات میں وہ دونوں میں سے کسی ایک ایوان میں برتری حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
اس وقت ایوانِ نمائندگان میں حکمران جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کے 220 اور ری پبلکن پارٹی کے 212 ارکان ہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی اس عددی برتری کے ساتھ ایوانِ نمائندگان سے قوانین منظور کرا سکتی ہے۔
سینیٹ کے 100 رکنی ایوان میں دونوں جماعتوں کے 50، 50 ارکان ہیں۔ آئین کے مطابق سینیٹ کی سربراہی نائب صدر کے پاس ہوتی ہے۔ اس وقت امریکہ کی نائب صدر کاملا ہیرس دو پارٹیوں کی یکساں نمائندگی رکھنے والی سینیٹ کی سربراہ ہیں اور کسی بھی معاملے پر ووٹ برابر یا ٹائی ہونے کی صورت میں وہ اپنا ووٹ استعمال کرسکتی ہیں۔
اسقاطِ حمل کا مسئلہ
رواں برس جون میں امریکہ کی سپریم کورٹ نے اسقاطِ حمل کے حق سے متعلق 1973 کے میں دیے گئے اپنے ہی ایک فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔
سپریم کورٹ کے اسقاطِ حمل سے متعلق مشہور زمانہ 'رو بنام ویڈ' فیصلے میں اسقاطِ حمل کو قانونی عمل قرار دیا گیا تھا۔ تاہم اعلیٰ عدالت نے اس حق کو اب ختم کر دیا ہے جس کے بعد اب مختلف ریاستیں انفرادی سطح پر اسقاطِ حمل کے طریقۂ کار پر پابندی لگانے کے لیے قانون سازی کرسکتی ہیں۔
اس فیصلے کے بعد سے مڈ ٹرم انتخابات میں اسقاطِ حمل کے حق سے متعلق قانونی سازی اہم انتخابی موضوع بن چکا ہے۔
اس معاملے پر امریکہ میں خواتین سمیت آبادی کے ایک بڑے حصے میں تشویش پائی جاتی ہے۔ اس لیے توقع کی جارہی ہے کہ اس ایشو کی وجہ سے وسط مدتی انتخابات میں ٹرن آؤٹ روایت سے ہٹ کر زیادہ ہوگا۔
کیلی فورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر لزا بریئنٹ کا کہنا ہے کہ غصہ زیادہ فعال کرنے والا جذبہ ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کسی ایشو پر اگر عوام میں بے چینی پائی جاتی ہو تو وہ گھروں سے نکلتے ہیں۔ اس لیے توقع ہے کہ اسقاطِ حمل کے ایشو کی وجہ سے انتخابات میں خواتین کی شرکت بڑھے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ اسقاطِ حمل سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نوجوان خواتین نے بڑی تعداد میں ووٹ رجسٹر کرائے ہیں۔ اس لیے ممکن ہے کہ اس بار نوجوانوں کی ووٹ دینے کی شرح میں اضافہ بھی دیکھنے میں آئے گا۔
تاریخ کیا بتاتی ہے؟
ہر دو برس بعد ہونے والے وسط مدتی انتخابات میں ایوانِ نمائندگان کے 435 اور سینیٹ کے سو ارکان میں سے ایک تہائی کا انتخاب ہوتا ہے۔ کیوں کہ امریکہ میں صدر کی مدت چار برس ہوتی ہے اور یہ الیکشن اس مدت کے درمیان ہوتے ہیں اس لیے انہیں وسط مدتی انتخابات کہا جاتا ہے۔ تاریخی اعتبار سے صدارتی انتخابات میں ووٹرز زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔
یونیورسٹی آف فلوریڈا میں سیاسیات کے پروفیسر اور ’یونائیٹڈ اسٹیٹس الیکشنز پراجیکٹ‘ کے سربراہ کے مطابق گزشتہ 100 برسوں میں صدارتی انتخابات میں ٹرن آؤٹ 49 سے 65 فی صد جب کہ مڈٹرم انتخابات میں یہ شرح 33 سے 49 فی صد رہی ہے۔
البتہ 2018 میں یہ شرح 50 فی صد تک پہنچ گئی تھی جو 1914 کے بعد سب سے زیادہ تھی۔ 2020 کے صدارتی انتخاب میں ووٹنگ کی شرح 66.7 فی صد رہی جو 1900 کے بعد سب سے زیادہ شرح تھی۔
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کی تقسیم کرنے والی سیاست بھی ٹرن آؤٹ کی اس بلند ترین شرح کا سبب ہے۔ ان کے جارحانہ انداز کی وجہ سے ان کے حامیوں اور مخالفین کی سیاسی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے۔
ماہرین کے نزدیک کرونا وائرس کی وبا کے دوران ووٹنگ کے لیے پیدا کی گئی آسانیوں کی وجہ سے بھی ٹرن آؤٹ میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
اس خبر میں شامل معلومات وائس آف امریکہ کے لیے روب گارور کی رپورٹ سے لی گئی ہیں۔