حکومتِ پاکستان نے روس کی سرکاری کمپنی سے ملکی ضرورت پوری کرنے کے لیےتین لاکھ میٹرک ٹن گندم خریدنے کا فیصلہ کیا ہے جس کی باقاعدہ منظوری کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے دے دی ہے۔
وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کی سربراہی میں قائم ای سی سی نے وزارت فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کی طرف سے تجویز پر روسی حکومت سے 372 ڈالر فی ٹن کی قیمت پر گندم کی خریداری کی منظوری دی۔
دو سال میں پہلی بار پاکستان اور روس کے درمیان ایک معاہدے کے تحت گندم کی تجارت ہو نے جا رہی ہے۔ اجناس پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ روس سے درآمد کردہ گندم کی شپنگ اور دیگر اخراجات ملا کر آٹے کی مارکیٹ میں قیمت 95 روپے فی کلو تک رہنے کا امکان ہے جب کہ اس وقت ملک میں تیار ہونے والی گندم کے آٹے کی قیمت بھی کم و بیش اتنی ہی ہے۔
حکومتی تخمینوں کے مطابق پاکستان کو اس سال گندم کی نئی فصل تیار ہوکر مارکیٹ میں آنے تک 26 لاکھ ٹن گندم کی کمی کا سامنا ہوگا جس کے پیشِ نظر حکومت بیرونِ ملک سے گندم درآمد کر رہی ہے۔
ماہرِ اجناس شمس الاسلام کہتے ہیں ترکی، اردن اور دیگر ممالک نے حال ہی میں روس سے گندم درآمد کی تھی جو پاکستان کے مقابلے میں کم نرخوں پر گندم کی درآمد تھی۔
ان کے بقول مذکورہ ممالک نے گندم کی خریداری کے لیے اس وقت ٹینڈر جاری کیے تھے جب عالمی مارکیٹ میں گندم کی قیمت قدرے کم تھی۔ لیکن پاکستان نے روس سے گندم کی درآمد کا فیصلہ ایسے وقت میں کیا ہے جب عالمی مارکیٹ میں قیمتیں زیادہ ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان، روس اور یوکرین سے بڑی مقدار میں گندم، دالیں اور تیل کے بیج درآمد کرتا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ سال روس اور یوکرین سے درآمدات نے گندم کی کل درآمدات میں 77.3 فیصد حصہ ڈالا۔
عالمی مارکیٹ میں گندم کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کی ایک وجہ روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ ہے جو فوری طور پر رُکتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی۔ دونوں ہی ملک زرعی پیداوار خاص طور پر گندم برآمد کرنے والے بڑے ممالک شامل ہیں۔
پاکستان کا شمار بھی بڑے زرعی ممالک میں ہوتا ہے جو اپنی کل آمدنی یعنی جی ڈی پی کا تقریبا 24 فی صد زراعت سے حاصل کرتا ہے اور یہ گندم پیدا کرنے والے دنیا کے دس بڑے ممالک میں شامل ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان میں گندم کی پیداوار میں ریکارڈ کمی دیکھی جارہی ہے۔
اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق ملک میں گزشتہ سال گندم کی پیداوار 27.5 ملین ٹن سے کم ہوکر 26.4 ملین ٹن ہوگئی ہے جب کہ ملک میں گندم کی پیداوار کا ہدف 28.90 ملین میٹرک ٹن رکھا گیا تھا۔
گندم بحران پیدا کیوں ہوتا ہے؟
پاکستان میں گندم کی بوائی کے رقبے میں کمی دیکھی گئی ہے جب کہ ملکی آبادی کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے باعث اس کی مانگ میں مسلسل اضافہ بھی ہو رہا ہے ۔ گندم کی بوائی کے وقت ملک میں جاری کھاد کا بحران بھی اس کی ایک وجہ قرار دیا جارہا ہے۔
پاکستان میں پیدا ہونے والی گندم کی سرحد کے راستے افغانستان اور ایران اسمگلنگ اور پھر ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے بھی گندم اور آٹے کا بحران پیدا ہوتا ہے۔ تاہم ماہرین گندم کی پیداوار میں کمی کی وجوہات میں سب سے اہم موسمیاتی تبدیلی کو قرار دیتے ہیں۔
زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سال پاکستان ایک تہائی علاقے میں شدید بارشوں سے سیلاب کے باعث گندم کی پیداوار پھر سے متاثر ہونے کا خدشہ ہے اور ملک کو ایک بار پھر قیمتی زرمبادلہ کے ذخائر استعمال کرتے ہوئے گندم درآمد کرنا پڑے گی۔
شمس الاسلام کے مطابق پاکستان نے رواں سال مئی سے گندم کی درآمد کے ٹینڈرز جاری کرنا شروع کیے تھے جس کے تحت اب تک 10 لاکھ ٹن گندم منگوائی جاچکی ہے۔
ان کے بقول، ملک میں گندم کے اپنے ذخائر بھی موجود تھے لیکن اس کے باوجود گندم کی قیمتیں کم ہونے کے بجائے مزید بڑھتی چلی جارہی ہیں اور درآمد کے باوجود بھی گندم کی قیمتوں پر کوئی اثر نہیں پڑا۔
ماہرِ اجناس شمس الاسلام کے بقول "روس سے اضافی گندم درآمد کرنے اور سپلائی بہتر ہونے کے باوجود آٹے کی قیمتوں میں کوئی کمی نہیں آ سکتی۔"