مصر میں جمہوریت کے سرگرم کارکن علیٰ عبدل فتح نے جیل میں اپنی بھوک ہڑتال ختم کردی ہے۔ ان کے اہلِ خانہ نے بتایا ہے کہ فتح کی والدہ کو منگل کے روز ان کے ہاتھ کا لکھا ایک مختصر خط حکام کے ذریعے ملا ہے جس میں انہوں نے بھوک ہڑتال ختم کرنے کے بارے میں لکھا ہے۔
عبدل فتح کے اہلِ خانہ نے ایک بیان میں بتایا ہے کہ اس خط پر پیر کے دن کی تاریخ ہے اور اس میں فتح نے اپنی والدہ لیلیٰ سیف سے کہا ہے کہ وہ جمعرات کو ان سے ملاقات کریں۔ اور اگر ایسا ہو گیا تو ایک ماہ کے عرصے میں ان کے اہلِ خانہ کی یہ پہلی ملاقات ہوگی۔
خط میں فتح نے لکھا ہے،’ میں نے اپنی ہڑتال ختم کر دی ہے۔ میں سب تفصیل جمعرات کو بتاؤں گا۔‘ یہ خط کن حالات میں لکھا گیا، اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا تاہم ایسو سی ایٹڈ پریس کے مطابق، اس سے پہلے فتح نے کہا تھا کہ اگر انہیں رہا نہ کیا گیا تو وہ تادمِ مرگ بھوک ہڑتال کریں گے۔
فتح نے اپنے خط میں اپنی والدہ سے یہ فرمائش بھی کی ہے کہ وہ ’ان کی 41 ویں سالگرہ کے لیے کیک بھی لے کر آئیں۔‘ ان کی والدہ لیلیٰ سیف کا کہنا ہے کہ اسی بات سے انہیں تسلی ملی ہے کہ کم از کم ان کے بیٹے کی نفسیاتی حالت ٹھیک ہے
مکمل بھوک ہڑتال کی وجہ سے عبدل فتح کی زندگی کے بارے میں تشویش بڑھتی جا رہی تھی۔ انہوں نے 2 اپریل کو جزوی بھوک ہڑتال شروع کی تھی جب کہ 6 نومبر کو انہوں نے پانی پینا بھی چھوڑ دیا تھا تاکہ ان کی رہائی کے لیے مصر پر دباؤ بڑھایا جا سکے۔
ان کی بھوک ہڑتال ایسے میں خبروں کا موضوع بنی جب مصر، ماحولیات کی بین الاقوامی سربراہ کانفرنس، COP27 کی میزبانی کر رہا ہے۔ ساتھ ہی دیگر سیاسی قیدیوں کی صورتِ حال پر بھی توجہ مرکوز ہوئی ہے۔
عبدل فتح مصر کے ممتاز ترین جمہوریت نواز سرگرم کارکنوں میں سے ایک ہیں اور گز شتہ ایک عشرے کا بیشتر حصہ انہوں نے جیل میں گزارا ہے۔ اس وقت وہ فیس بک پر ایک پوسٹ شئیر کرنے کے الزام میں پانچ سال کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ وہ 2011میں مشرقِ وسطیٰ کو اپنی لپیٹ میں لینے والی "عرب سپرنگ"نامی جمہوریت نواز بغاوتوں کے درمیان ابھر کر سامنے آئے۔
دو ہفتے کی ماحولیاتی کانفرنس COP27 کے دوران امریکی صدر جو بائیڈن، برطانوی وزیرِ اعظم رشی سونک، فرانس کے صدر ایمینوئیل میخواں اور جرمن چانسلر اولف شولز نے مصر کے صدر عبدل فتح السیسی کے ساتھ نجی گفتگو میں عبدل فتح کا معاملہ اٹھایا۔
کانفرنس میں مصر کے وزیرِ خارجہ سامع شوکری کا کہنا تھا کہ اس کانفرنس میں ترجیح ماحولیاتی تبدیلی سے درپیش حقیقی چیلنجز پر توجہ کو دی جانی چاہئیے۔
ایرانی بلاگر حسین رونقی کی جیل کے اسپتال میں بھوک ہرتال
ادھر ایران کے ایک بلاگر اور سرگرم کارکن کو اس اختتامِ ہفتہ اسپتال لایا گیا جن کے بارے میں پیر کو ایرانی عہدیداروں کا کہنا تھا کہ ان کی حالت بہتر ہے جب کہ ان کے اہلِ خانہ اور بین الاقوامی برادری کو ان کے بارے میں تشویش ہے۔
حسین رونقی کو 24 ستمبر کو انسانی حقوق کے درجن بھر ممتازسرگرم کارکنوں، صحافیوں اور وکلاء کے ساتھ مہسا امینی کی موت پر احتجاج کے خلاف کارروائی کے دوران حراست میں لیا گیا تھا۔
22سالہ مہسا امینی 16 ستمبر کو، حجاب درست طورپر نہ پہننے کے الزام میں، ملک کی اخلاقیات سے متعلق پولیس کی حراست میں انتقال کر گئی تھیں۔
رونقی جنہیں حراست میں لینے کے بعد ایون جیل منتقل کر دیا گیا تھا، 50 روز سے زیادہ عرصے سے بھوک ہڑتال پر ہیں۔ ان کے اہلِ خانہ کو ان کی گردوں کی بیماری کی وجہ سے ان کی صحت سے متعلق تشویش ہے۔ ان کے بھائی حسن رونقی نے ٹوئٹر پر لکھا کہ جیل میں حسین رونقی کی دونوں ٹانگیں توڑ دی گئی ہیں۔
تاہم ایران کی جوڈیشری نیوز ایجنسی "میزان " کا کہنا ہے کہ ان کی صحت ٹھیک ہے اور انہیں جلد ہی اسپتال سے فارغ کر دیا جائے گا۔ خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق "میزان" نے کہا ہے کہ ان کی ٹانگیں ٹوٹنے کے بارے میں تمام دعوے جھوٹے ہیں۔
اگرچہ ایرانی محکمہ انصاف کے عہدیداروں نے یہ نہیں بتایا کہ انہیں اسپتال کیوں لایا گیا اور ان پر کیا الزامات ہیں تاہم پیر کے روز حسن رونقی نے محکمہ انصاف کی طرف سے اسپتال کے بستر پر لی گئی حسین رونقی کی شائع شدہ ایک تصویر شئیر کی اور اس بات کی تصدیق کی کہ رونقی کے والدین نے پیر کے روز ان سے اسپتال میں ملاقات کی اور بتایا کہ ان کی حالت بظاہر اب بہتر ہے۔
اے ایف پی کے مطابق 37 سالہ حسین رونقی، وال سٹریٹ جرنل کے لیے لکھتے ہیں اور ایران میں رہتے ہوئے اسلامی جمہوریہ کے سب سے زیادہ بے خوف ناقدین میں سے ایک رہے ہیں۔
قومی سلامتی کےامریکی مشیر جیک سلیون نے پیر کے روز کہا،’ مسٹر رونقی کی طرح سیاسی قیدیوں کی ایذا رسانی اور ان سے ناروا سلوک بند ہونا چاہئیے‘۔
ناروے میں قائم غیر سرکاری تنظیم، ایران ہیومین رائٹس نے کہا ہے کہ ایران میں مظاہروں میں شریک 750 افراد پر الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ دوماہ پہلے شروع ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں گزشتہ ہفتے تک ایرانی فورسز کے ہاتھوں کم از کم 326 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں سیکیورٹی فورسز کے 40 سے زیادہ اہل کار بھی ہلاک ہوئے ہیں۔