اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں وزیرِ اعظم شہباز شریف نے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ سیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث ایک تہائی پاکستان ڈوبا ہوا ہے۔ عالمی ماحولیاتی آلودگی سے پاکستان متاثر ہو رہا ہے۔ پہلے بڑھتے ہوئے درجہء حرارت اور اب سیلاب کا سامنا ہے حالاں کہ دنیا میں جو کاربن فضا میں بھیجی جارہی ہے، پاکستان کا اس میں ایک فی صد سے بھی کم حصہ ہے جب کہ پاکستان کو جن مسائل کا سامنا ہے اس کی وجہ خود پاکستان نہیں ہے۔
وزیر ِاعظم کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے شہری اتنی زیادہ گلوبل وارمنگ کی قیمت کسی غلطی کے بغیر کیوں ادا کر رہے ہیں؟ موسمیاتی تبدیلیوں کا سبب بننے والی گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں ان کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے جب کہ دُہری قیمت پاکستان کے خزانے اور لوگوں کو ادا کرنا پڑ رہی ہے۔
پاکستانی حکام جن میں وزیرِ اعظم کے علاوہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور دیگر کی جانب سے ملک میں سیلابی صورتِ حال کے بعد ایسے کئی بیانات سامنے آچکے ہیں، جن میں عالمی برادری سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ موجودہ مشکل صورتِ حال میں ملک پر واجب الادا غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لیے رعایت کی جائے۔
اس سے قبل اقوام ِمتحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد یہ تجویز دی تھی کہ عالمی مالیاتی ادارے پاکستان اور اس جیسے دیگر ممالک جو ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے زیادہ متاثر ہیں اور انتہائی مشکل معاشی صورتِ حال سے بھی گزر رہے ہیں، ان کے لیے قرضوں کی ادائیگی میں آسانی کا نظام بنایا جائے۔
سیکریٹری جنرل کے مطابق اس مقصد کے لیے "قرضوں کے تبادلے" یعنی ڈیبٹ سویپ کا نظام ترتیب دیا جائے، جس کے تحت یہ ممالک قرضوں کی ادائیگی کے بجائے خود کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بچاؤ اور پائیدار انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کرسکیں۔
اسلام آباد میں قائم 'سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ' کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری کہتے ہیں کہ قرضوں کا تبادلہ اور قرضے معاف کرنا دو الگ باتیں ہیں۔
ان کے بقول قرضوں کے تبادلے یعنی ڈیبٹ سویپ سے مراد یہ ہے کہ کسی دوسرے ملک یا عالمی مالیاتی ادارے کے واجب الادا قرضے کو رسمی مذاکرات کے بعد اس پیسے کو مخصوص مقصد یعنی موجود حالات کے مطابق سیلاب سے پہنچنے والے نقصان کو پورا کرنے کے لیے استعمال میں لائے جائیں جب کہ قرضے معاف کرنے کا مطلب کافی واضح ہے کہ کوئی بھی ملک یا مالیاتی ادارہ واجب الادا قرضے کو سرے سے معاف کردے۔
عابد قیوم سلہری نے مزید بتایا کہ ماضی میں پاکستان میں 2005 میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے بعد بھی پاکستان پر واجب الادا کچھ قرضے سویپ ہوئے تھے۔ اس کے تحت کئی ممالک بشمول بیلجیئم، ناروے، اٹلی اور دیگر ممالک نے پاکستان کے ذمے واجب الادا قرضے سویپ کرکے یہ رقم ایشیائی ترقیاتی بینک کے تحت قائم پاکستان ارتھ کوئیک فنڈ میں منتقل کی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ اسی طرح فِن لینڈ اور آسٹریلیا نے بھی اس فنڈ میں اپنا حصہ ڈالا تھا، یہی نہیں بلکہ بین الاقوامی ڈونرز کانفرنس کے ذریعے دنیا بھر نے پاکستان کو چھ ارب 20 کروڑ ڈالر کی امداد کا بھی وعدہ کیا تھا، جس میں دو ارب 20 کروڑ ڈالر کی گرانٹ بھی شامل تھی جب کہ بہت سے ممالک نے پاکستان کے ذمے قرضے مؤخر بھی کیے تھے۔
ڈاکٹر عابد سلہری کے مطابق قرضوں کے تبادلے کی کئی اور مثالیں بھی موجود ہیں لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ کون کون سے قرض دینے والے ممالک ایسے ہیں، جو اس پر تیار ہوجاتے ہیں اور کس قدر رقم کا سویپ وہ تسلیم کرتے ہیں۔
ماضی میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے غریب ممالک کو قرضوں کے بوجھ کم کرنے کے لیے ایک پروگرام کا اجرا بھی کیا تھا، جس کے تحت اب تک 31 افریقی ممالک سمیت 37 ممالک کو 76 ارب ڈالرز کے قرضوں کا ریلیف فراہم کیا جاچکا ہے۔
ان ممالک کو اس پروگرام کے تحت پالیسیوں میں تبدیلی لاکر غربت میں کمی اور اصلاحات کو ممکن بنانے سمیت دیگر اقدامات کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔ اب تک اس پروگرام سے افغانستان، صومالیہ، سینیگال ، کانگو، ایتھوپیا اور دیگر افریقی ممالک مستفید ہوچکے ہیں۔
ڈاکٹر سلہری کا مزید کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ قرضوں کے تبادلوں میں سیاسی مصلحتیں بھی کارفرما ہوتی ہیں اورتمام ہی ممالک کے سیاسی اور معاشی مفادات تو ہوتے ہی ہیں۔
عابد قیوم سلہری کے مطابق پاکستان کو امداد کے بجائے موسمیاتی انصاف کی بات کرنا چاہیے کیوں کہ امداد، دیگر ممالک احسان سمجھ کردیتے ہیں جب کہ ہمیں ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے کاربن کے اخراج کی صورت میں پہنچنے والے نقصان کا ازالہ درکار ہے۔ اس کے لیے دنیا کو اپنا کیس ٹھیک طریقے سے پیش کرنے کے ساتھ سفارتی دباؤ کو بھی استعمال کرنا ہوگا۔
ادھر پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) اور لاہور یونی ورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) میں درس و تدریس سے وابستہ ڈاکٹر اکرام الحق کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتِ حال میں پیرس کلب (جس میں دنیا کے امیر ترین قرضہ دینے والے ممالک شامل ہیں) میں شامل ممالک سے دو طرفہ معاہدوں کی شکل میں دیے گئے قرضے معاف یا مؤخر دونوں ہوسکتے ہیں لیکن عالمی مالیاتی اداروں جیسے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے ملنے والا قرضہ سویپ ہی ہوسکتا ہے۔ یعنی بات چیت کامیاب ہونے کی صورت میں پاکستان کو واجب الاداد قرضہ ان مالیاتی اداروں کو واپسی کے بجائے اپنے ہی ملک میں حالیہ تباہی سے بحالی کی مد میں خرچ کرنا پڑ سکتا ہے۔
ڈاکٹر اکرام الحق کا کہنا ہے کہ بہت سے ممالک جہاں قحط یا دیگر قدرتی آفات آئیں۔ انہیں ماضی میں قرض معاف کیا جاتا رہا ہے جب کہ یہاں مصر کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے ،جو عراق جنگ میں امریکی اتحاد میں شامل رہا تھا اور اس کے نتیجے میں بطور انعام امریکہ اور اس کے 17 اتحادی ممالک نے اس کے ذمے اپنےآدھے قرضے معاف کردیے تھے۔ جو 10 ارب ڈالر سے زائد تھے۔ مصر کو اس زمانے میں سیاحوں کی آمد میں کمی، سوئز کینال سے حاصل ہونے والی آمدنی میں کمی اور بیرون ملک مقیم مصریوں کی جانب سے غیرملکی زرِمبادلہ کے ذخائر کم ملنے سے کافی معاشی مشکلات کا سامنا تھا۔
ڈاکٹر اکرام الحق کا کہنا ہے کہ پاکستان کو بھی حالیہ سیلاب کے بعد انتہائی مشکل معاشی صورت حال کا سامنا ہے، جہاں ملک کا بڑا حصہ اب بھی پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ خواتین اور بچوں سمیت تین کروڑ سے زائد لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ جو اب صحت کے خطرات سے بھی دوچار ہیں۔ لاکھوں بے گھر ہوچکے ہیں۔ زراعت کو شدید نقصان پہنچنے کے ساتھ لوگوں کو خوراک کی کمی کا بھی سامنا ہے جب کہ مویشیوں کا نقصان اس کے علاوہ ہے۔
حکومتی ابتدائی تخمینوں کے مطابق پاکستان کو حالیہ شدید بارش اور اس سے پیدا ہونے والی سیلابی کیفیت سے تقریباً 30 ارب ڈالرز سے زائد کا نقصان ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہونے والا یہ ایسا نقصان ہے جس میں پاکستانیوں کا قصور نہیں، بلکہ اس کا تعلق امیر ممالک سے ہے، جن کے ہاں کاربن کے زیادہ اخراج سے یہ تبدیلیاں واقع ہورہی ہیں۔ اس لیے ان کے خیال میں پاکستان اس ضمن میں ازالے کی بات کررہا ہے تو وہ بالکل بجا ہے۔
تاہم ڈاکٹر اکرام الحق کا کہنا ہے کہ اس کے لیے سب سے پہلے تو ہمیں بھی دنیا کو پیغام دینا ہوگا۔ اس قدر بڑی حکومتوں کے اخراجات کو کم کرنا ہوگا۔ ملک میں سیلاب میں ڈوبا ہو اور ایسے میں یہ خبریں سامنے آنا کہ ڈیوٹی فری گاڑیاں درآمد کرنے کی اجازت دی جارہی ہے تو اس کا پیغام دنیا کو کافی منفی جاتا ہے۔ پاکستانی قیادت اگر دنیا سے یہ کہتی پھر رہی ہے کہ دنیا ہماری اس مشکل میں مدد کرے اور آپ خود ایسے اخراجات کرتے پھریں جو کسی صورت بھی قابل جواز نہ ہوں تو یہ غلط ہے۔ ایسے حالات میں حکومت کو بھی اپنے اخراجات ہر صورت کم کرکے دنیا کو مثبت پیغام دینا چاہیے۔
لیکن بعض ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس بات کے امکان بہت کم ہیں کہ طاقتور اور امیر ممالک اس بنا پر پاکستان کی بہت زیادہ مدد کریں گے یا اس سے بین الاقوامی نظام میں کوئی تبدیلی آجائے گی۔ ان کے خیال میں ایسی کوئی توقع رکھنا بھی ٹھیک نہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پائیدار ترقی کے لیے پاکستان جیسے ممالک کو خود بھی اپنے شہریوں کی بقا اور ان کی سلامتی کے لیے دور رس پالیسیاں بناکر ان پر سختی سے عمل پیرا ہونا ہوگا۔
دوسری طرف اقوامِ متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی کے پاکستان سے متعلق ایک پالیسی پیپر میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو قرضوں کی واپسی کے بجائے سیلاب سے پیدا ہونے والی انسانی ایمرجنسی پر رقم خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے پاکستان کو قرض دہندگان سے قرضوں کی واپسی میں ریلیف حاصل کرنے کے لیے مذاکرات کرنے چاہیے۔
پاکستان پر اس وقت قرضوں کا مجموعی حجم 130 ارب ڈالر سے بھی بڑھ چکا ہے۔ جو اس کی مجموعی قومی آمدن کا تقریباً 40 فیصد بنتا ہے۔
رواں سال پاکستان کو بیرونی قرضوں کی صورت میں عالمی مالیاتی اداروں اور ممالک کو 31 ارب ڈالرز کے لگ بھگ ادائیگی کرنی ہے۔
پاکستان کو گزشتہ ماہ کے آخر ہی میں آئی ایم ایف کی جانب سے ایک ارب 20 کروڑڈالرز قرض کی نئی قسط موصول ہوئی ہے، جسے معاشی بحالی اور استحکام کے لیے انتہائی اہم قرار دیا جارہا تھا البتہ اس کے باوجود اس وقت ملک کے غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر محض 14 ارب ڈالرز پر کھڑے ہیں اور اس کے ساتھ ہی پاکستانی کرنسی امریکی ڈالر کے مقابلے میں حالیہ عرصے میں تیزی سے نیچے آئی ہے۔
پاکستانی روپے کو دنیا میں سب سے بری کارکردگی کی حامل کرنسیز میں شمار کیا جارہا ہے۔