پاکستان کی فوج کے نئے سربراہ کے تقرر سے متعلق سمری وزیرِ اعظم آفس کو موصول ہونے کی تصدیق کے بعد اب وزیرِ اعظم شہباز شریف کو فوج کی کمان کے لیے کسی ایک نام کا انتخاب کرنا ہے۔
وزیرِ اعظم کے دفتر نے فوج کے نئے سربراہ کے تقرر کے لیے لیفٹننٹ جنرل کے ناموں کی فہرست ملنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزارتِ دفاع سے سمری موصول ہو گئی ہے۔
وزیرِ اعظم آفس کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور آرمی چیف کی تعیناتی کے لیے ناموں کا پینل موصول ہوا ہے۔
بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ وزیرِ اعظم تقرر پر فیصلہ طریقۂ کار کے تحت کریں گے۔
قبل ازیں وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے منگل او ربدھ کی درمیانی شب بذریعہ ٹوئٹ تصدیق کی تھی کہ نئے آرمی چیف کے لیے ناموں کی سمری موصول ہو گئی ہے اور جلد باقی مراحل بھی طے ہو جائیں گے۔
اس سے قبل پاکستان فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ ( آئی ایس پی آر) نے بھی غیر روایتی طور پراعلان کیا تھا کہ چھ سینئر ترین لیفٹننٹ جنرلز کے نام وزارتِ دفاع کو نئے آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹس چیف آف اسٹاف کے تقرر کے لیے ارسال کر دیے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان کے موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ رواں ماہ 29 نومبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں جب کہ اسی ماہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ندیم رضا کی مدتِ ملازمت بھی مکمل ہو رہی ہے۔
پاکستان کا آئین وزیرِ اعظم کو ملک کا چیف ایگزیکٹو ہونے کی حیثیت سے یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ آرمی چیف کا تقرر کریں۔
ملک کے آئین کے آرٹیکل 243 کی شق تین کے تحت وزیرِ اعظم آرمی چیف اور جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کے سربراہ کے تقرر کے لیے نام تجویز کرکے صدر کو ارسال کرتے ہیں۔آئین کے اسی آرٹیکل کے تحت صدرِ پاکستان وزیرِ اعظم کی سفارش پر تینوں مسلح افواج یعنی بری، بحریہ اور فضائیہ کے سربراہان کا تقرر کرتے ہیں۔
بعض مبصرین کے مطابق آئین میں درج اس مختصر طریقۂ کار کی وجہ سے بہت سی تشریح، ابہام اور توجیحات جنم لیتے ہیں۔
آرمی چیف کے تقرر کے حوالے سے آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر کو اصولی طور پر وزیرِ اعظم کی سفارش کو منظور کرنا چاہیے تاہم آئین انہیں یہ بھی اختیار دیتا ہے کہ وہ سمری کو نظرِ ثانی کے لیے دوبارہ وزیرِ اعظم کو ارسال کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔
آئین و قانون کے ماہرین آرمی چیف کی تعیناتی کو ایک اعلیٰ سرکاری افسر کے تقرر کو معمول کا عمل قرار دیتے ہیں لیکن پاکستان میں فوج کی سیاست میں مداخلت اور طویل عرصے تک حکمرانی کی وجہ سے اس عمل کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔
اس وقت پاکستان میں صدر اور وزیرِ اعظم کا تعلق دو حریف جماعتوں سے ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی سربراہی میں قائم وفاقی حکومت کی قیادت وزیرِ اعظم شہباز شریف کر رہے ہیں جب کہ صدر کا عہدہ حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق سیکریٹری جنرل ڈاکٹر عارف علوی کے پاس ہے۔
پی ٹی آئی کی حکومت رواں برس اپریل میں اس وقت ختم ہوئی تھی جب اس وقت کی حزبِ اختلاف اور موجودہ حکمران جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے قومی اسمبلی میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد پیش کی تھی۔
عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد شہباز شریف نے وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ سنبھال لیا تھا۔ البتہ عمران خان یہ الزام عائد کرتے رہے کہ ان کی حکومت بیرونی سازش کے ذریعےختم کی گئی لیکن اب وہ اپنے بیشتر الزامات سے پیچھے ہٹتے چلے جا رہے ہیں۔
موجودہ حکومت کا دعویٰ رہا ہے کہ عمران خان نئے آرمی چیف کے لیے تقرر کے عمل کے دوران مشاورت کا حصہ بننے کے خواہش مند تھے لیکن انہوں نے حکومت کے خلاف جاری لانگ مارچ میں اس دعوے کو مسترد کر دیا تھا۔
منگل کی شب نئے آرمی چیف کے تقرر سے متعلق رپورٹس سامنے آئی تھیں کہ فوج نے ناموں کی سمری وزارتِ دفاع کو ارسال کر دی ہے تاہم بعض وفاقی وزرا نے ایسی کسی بھی سمری موصول ہونے کی اطلاعات کو مسترد کر دیا تھا۔
بعد ازاں آئی ایس پی آر نے منگل اور بدھ کی درمیانی شب 12 بجے سوشل میڈیا کے ذریعے اعلان کیا کہ جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) نے نئے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی (سی جے سی ایس سی) اور چیف آف آرمی اسٹاف (سی او اے ایس) کے لیے فوج کے سب سے سینئر چھ لیفٹننٹ جنرلز کے نام وزارتِ دفاع کو ارسال کر دیے ہیں۔
قبل ازیں مقامی میڈیا یہ رپورٹ کر رہا تھا کہ فوج کی جانب سے پانچ سینئر ترین افسران کے نام حکومت کو ارسال کیے جائیں گے البتہ اب چھ نام سامنے آئے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق فوج کے چھ سینئر ترین افسر ان میں لیفٹننٹ جنرل عاصم منیر کا نام سرِ فہرست ہے جنہوں نے 2018 میں ہی لیفٹننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی پائی تھی۔
جنرل عاصم منیر ملک کے سب سے طاقت ور خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے بھی سربراہ رہ چکے ہیں۔ مقامی میڈیا کے مطابق عمران خان کے دورِ حکومت میں انہیں آئی ایس آئی کے سربراہ کے عہدے سے ہٹادیا گیا تھا۔
جی ایچ کیو کی فہرست میں دوسرا ممکنہ نام سینئر ترین جنرل لیفٹننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا کا ہے۔ وہ اس وقت راولپنڈی کے کور کمانڈر ہیں جب کہ وہ ڈی جی ملٹری آپریشنز رہے ہیں۔
لیفٹننٹ جنرل اظہر عباس سینیارٹی لسٹ میں تیسرے نمبر پر ہیں اور اس وقت فوج کے چیف آف جنرل اسٹاف ہیں۔
بلوچ رجمنٹ سے تعلق رکھنے والے لیفٹننٹ جنرل نعمان محمود کا نام فہرست میں تو چوتھے نمبر پر ہے البتہ کئی مبصرین انہیں آرمی چیف کے لیے فیورٹ امیدوار قرار دیتے رہے ہیں۔ تاہم اس کی تصدیق کسی بھی حکومتی شخصیت نے نہیں کی اور کسی کے فیورٹ ہونے کی رپورٹس کو مسترد کیا جاتا رہا ہے۔
لیفٹننٹ جنرل نعمان محمود اس وقت نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے سربراہ ہیں۔
جی ایچ کیو کی فہرست میں پانچویں ممکنہ افسر لیفٹننٹ جنرل فیض حمید ہیں۔ وہ جون 2019 سے نومبر 2021 تک آئی ایس آئی کے ڈی جی کے طور پر فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔ نومبر 2021 میں ان کا تبادلہ کور کمانڈر پشاور کے طور پر کیا گیا، بعد ازاں انہیں اگست 2022 میں کور کمانڈر بہاولپور بنا دیا گیا۔
جی ایچ کیو کی فہرست میں چھٹا نام لیفٹننٹ جنرل محمد عامر کا ہے۔ وہ اس وقت گوجرانولہ کے کور کمانڈر ہیں۔
جنرل محمد عامر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت میں سابق صدر آصف علی زرداری کے ملٹری سیکریٹری کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔
واضح رہے کہ اب وزیرِ اعظم شہباز شریف چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور چیف آف آرمی اسٹاف کے لیے دو نام صدر کو ارسال کریں گے۔
صدرِ پاکستان عمومی طور پر وزیرِ اعظم کے تجویز کردہ ناموں کی منظوری دے کر تقرر کر دیتے ہیں البتہ قانونی ماہرین کے مطابق صدر کے پاس اختیار موجود ہے کہ صدر کسی بھی سمری کو 15 دن تک التوا میں ڈال سکتے ہیں یا وزیرِ اعظم کو نظرِ ثانی کے لیے دوبارہ ارسال کر سکتے ہیں تاہم اگر وزیرِ اعظم دوبارہ وہی سمری ارسال کرتے ہیں تو وہ 10 روز کے بعد اس کی خود بخود قانونی حیثیت بن جاتی ہے۔
واضح رہے کہ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو نومبر 2016 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں فوج کا سربراہ مقرر کیا تھا۔ وہ اُس وقت سینیارٹی لسٹ میں چوتھے نمبر پر تھے۔
جنرل باجوہ کی مدتِ ملازمت نومبر 2019 میں مکمل ہونا تھی البتہ اس سے چار ماہ قبل اگست 2019 میں اس وقت ملک میں تحریکِ انصاف کی نئی حکومت کی قیادت کرنے والے وزیرِا عظم عمران خان نے جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع دینے کا فیصلہ کیا تھا۔
اگست 2019 میں جنرل قمر جاوید باجوہ کے ایکسٹینشن کا اعلامیہ جاری ہونے سے دو ماہ قبل فوج میں اعلیٰ سطح پر تبدیلیاں کی گئی تھیں اور لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کو آئی ایس آئی کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔