وزیرِ اعظم عمران خان نے پاکستان کے اہم ترین خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے نئے سربراہ کے تقرر کی منظوری دے دی ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق لیفٹننٹ جنرل ندیم انجم کی تعیناتی کی منظوری دی گئی ہے۔
وزیرِ اعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ لیفٹننٹ جنرل ندیم احمد انجم 20 نومبر 2021 کو اپنے عہدے کا چارج سنبھالیں گے اور موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی اس وقت تک اپنی ذمے داریاں ادا کرتے رہیں گے۔
وزیرِ اعظم ہاؤس کے سوشل میڈیا پر جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ نئے ڈی جی آئی ایس آئی کے تقرر کے لیے وزیرِ اعظم نے وزارتِ دفاع سے موصول ہونے والے فہرست میں شامل ناموں کے انٹرویو کیے تھے۔
وزیرِ اعظم ہاؤس کے بیان کے مطابق وزیرِ اعظم عمران خان اور پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے درمیان ملاقات میں آئی ایس آئی کے نئے سربراہ کے تقرر کے وقت میں تبدیلی اور نئے ڈائریکٹر جنرل کے انتخاب سے متعلق جاری مشاورتی عمل کا حصہ تھی۔
بیان کے مطابق وزیرِ اعظم ہاؤس کو ڈی جی آئی ایس آئی کے تقرر کے عمل میں وزارتِ دفاع سے ایک فہرست موصول ہوئی تھی۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے فہرست میں شامل افسران کے انٹرویو کیے۔ اس سلسلے کے آخری مرحلے میں وزیرِ اعظم عمران خان اور آرمی چیف کے درمیان مشاورت ہوئی۔
وزیرِ اعظم ہاؤس کے مطابق اس طویل مشاورت کے بعد نئے ڈی جی آئی ایس آئی کے لیے لیفٹننٹ جنرل ندیم انجم کے نام کو منظور کیا گیا ہے۔ وہ 20 نومبر 2021 کو اپنی ذمے داریاں سنبھالیں گے۔
پاکستان میں چھ اکتوبر 2021 کو فوج میں ہونے والے تقرر و تبادلوں کے بعد مختلف قیاس آرائیوں نے جنم لیا تھا۔
اس دن پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) نے تقرر اور تبادلوں کا اعلان کیا تھا جن کے مطابق کور کمانڈر کراچی لیفٹننٹ جنرل ندیم احمد انجم کا نام ڈی جی آئی ایس آئی کے لیے تجویز کیا گیا تھا جس کی منظوری وزیرِ اعظم عمران خان نے اب دی ہے۔ جب کہ موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کو کور کمانڈر پشاور تعینات کیا گیا ہے۔
وزیرِ اعظم کی جانب سے منظوری نہ ہونے کے باعث نئے ڈی جی آئی ایس آئی نے عہدے کا چارج نہیں سنبھالا تھا۔
اس بارے میں کئی اعلیٰ سطح کی ملاقاتیں بھی ہوئیں اور وزرا کے ایک وفد کی بھی عسکری قیادت سے ملاقات ہوئی جس میں ان امور پر بات چیت کی گئی تھی۔
تقرر اور تبادلوں پر عمل درآمد
آئی ایس پی آر کے اعلان میں کہا گیا تھا کہ جنرل فیض حمید کو کور کمانڈر پشاور، لیفٹننٹ جنرل محمد سعید کو کور کمانڈر کراچی، لیفٹننٹ جنرل نعمان محمود کو صدر نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی تعینات کیا گیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ لیفٹننٹ جنرل محمد عامر کو کور کمانڈر گوجرانوالہ جب کہ کور کمانڈر گوجرانوالہ لیفٹننٹ جنرل عاصم منیر کو کوارٹر ماسٹر جنرل مقرر کرنے اور میجر جنرل عاصم ملک کو لیفٹننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر انہیں پاک فوج کا ایجوڈنٹ جنرل تعینات کرنے کا کہا گیا تھا۔
آئی ایس پی آر کے اعلان کردہ کچھ تعیناتیاں تعطل کا شکار تھیں کیوں کہ جنرل فیض حمید کے عہدہ چھوڑنے کے بعد لیفٹننٹ جنرل ندیم احمد انجم نے کراچی کور کی ذمے داریوں سے سبک دوش ہونا تھا اور لیفٹننٹ جنرل فیض حمید نے پشاورکور کی ذمے داریاں سنبھالنی تھیں۔
اسی طرح پشاور کے کورکمانڈر لیفٹننٹ جنرل نعمان نے اسلام آباد میں نیشنل ڈیفنس یونیرسٹی کے سربراہ کا عہدہ سنبھالنا تھا اور اس یونیورسٹی میں تعینات لیفٹننٹ جنرل سعید کور کمانڈر کراچی کی ذمے داریاں سنبھالنے کے منتظر تھے۔
ڈی جی آئی ایس آئی کے لیے تعیناتی کا نوٹیفکیشن نہ ہونے کی وجہ سے تین دیگر افسران بدستور اپنے عہدوں پر کام کر رہے تھے۔
نئے ڈی جی آئی ایس آئی کے نوٹیفکیشن کے بعد امکان ہے کہ آئندہ ماہ 20 نومبر کو تمام افسران اپنے نئے عہدوں پر کام شروع کر دیں گے۔
یہ سوالات کہ نئی تقرری میں تعطل کے اسباب کیا تھے، حکومت پر اس کے ممکنہ اثرات کیا پڑیں گے اور اگر یہ نہ ہوتا تو اس کا رد عمل کیا ہوتا؟ اس بارے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ریٹائرڈ جنرل نعیم لودھی نے کہا کہ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ یہ نوٹیفیکیشن ذرا تاخیر سے آیا ہے اور یہ معمول کی روایت سے مختلف بات ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کے خیال میں اس کی وجہ یہ تھی کہ خطے کے اسٹریٹیجک حالات کے پیش نظر حکومت یہ چاہتی تھی کہ جو پہلے سے اس عہدے پر موجود ہیں اور حالات سے واقف ہیں فی الحال وہی معاملات کو چلائیں اور شاید اس وقت بھی اسی سبب سے نئی تقرری کے لئے کوئی ایک ماہ بعد کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ اور ایسا اسلئے بھی کیا گیا ہے کہ اگر لوگوں کے ذہن میں یہ خیال ہو کہ اس بارے میں کوئی چپقلش ہے تو وہ ختم ہو جائے۔
جنرل نعیم لودھی نے کہا کہ ان کے خیال میں یہ نوٹیفیکیشن باہمی مشاورت اور مفاہمت سے ہی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فوج نے واضح طور پر اپنے عمل سے بتا دیا کہ تقرر کا حق وزیر اعظم ہی کو حاصل ہے اور وہی یہ تقرری کریں گے۔ دوسری جانب وزیر اعظم نے بھی یہ واضح کردیا کہ اس عہدے کے لئے نامزدگی کی سفارش کرنا آرمی چیف کا حق ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر آرمی چیف کی سفارش کے مطابق تقرری نہ کی جاتی یا سرے سے تقرری ہی نہ کی جاتی اور موجودہ ڈائریکٹر جنرل ہی کام کرتے رہتے اور وزیر اعظم ایسا کر بھی سکتے تھے اس میں پہلا مسئلہ تو خود جنرل فیض کے لئے ہوتا کہ وہ کوالیفائی نہ کر سکتے اگلے مرحلے کے لئے۔ دوسرے، آرمی چیف کی سبکی ہوتی، کیونکہ اپنے جنرلوں کو آرمی چیف سے بہتر کوئی نہیں جانتا اور جیسا کہ خود وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ جو اچھی کارکردگی والے ہیں ان کو آگے لایا جائے۔ تو آرمی چیف سے زیادہ کون جان سکتا ہے کہ کون سا جنرل کیا اہلیت رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ مختصراً یہ کہیں گے یہ 'وِن وِن' صورت حال ہے ہر فریق کے لئے۔ وزیر اعظم نے اپنا استحقاق استعمال کیا کہ نوٹیفیکیشن حکومت کرے گی۔ اور آرمی چیف نے اپنا حق استعمال کیا کہ سفارش آرمی چیف کی ہوگی۔
پاکستان کی ممتاز سیاسی تجزیہ کار، ڈاکٹر ہما بقائی نے اس حوالے سے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ سمجھتی ہیں کہ کوئی چپقلش تو تھی۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ نوٹیفیکیشن پہلے ہی آجاتا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت اس وقت اس بات کی متحمل نہیں ہو سکتی کہ اسے فوج کی جو حمایت حاصل ہے اسے کھو دیں اور اگر یہ نوٹیفیکیشن جاری نہ ہوتا تو صورت حال ان کے خیال میں مخدوش ہو سکتی تھی۔
اس سوال کے جواب میں کہ اب وہ کیا سمجھتی ہیں کہ کیا صورت حال ہے، انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتی ہیں کہ معاملہ 'ڈیمیج کنٹرول' کا ہے۔