رسائی کے لنکس

کیا صدر عارف علوی نئے آرمی چیف کے تقرر کو التوا میں ڈال سکتے ہیں؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان میں فوج کے نئے سربراہ کے تقرر پر ذرائع ابلاغ اور عوامی مباحثوں میں صدر کے اختیارات پر بھی بحث جاری ہے۔

یہ تذکرہ اس وجہ سے زبانِ زد عام ہےکیوں کہ صدر ڈاکٹر عارف علوی کا تعلق حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) سے ہے جب کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف مسلم لیگ (ن) کے صدر ہیں۔

تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان متعدد بار آرمی چیف کے تقرر پر بات کر چکے ہیں جب کہ ان کی جانب سے دیے گئے ان بیانات کے باعث بھی یہ خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ صدر ڈاکٹر عارف علوی حکومت کی تجویز پر اعتراض کرسکتے ہیں۔

حکومتی رہنما تو خدشہ ظاہر کر چکے ہیں کہ صدر ڈاکٹر عارف علوی آرمی چیف کے تقرر کے عمل کو متاثر کر سکتے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے چیئر مین اور وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی کہا ہے کہ اگر صدر ڈاکٹر عارف علوی نے آرمی چیف کے تقرر کے عمل میں رکاوٹ ڈالی، تو انہیں غیر آئینی اقدام پر نتائج بھگتنے ہوں گے۔

صدر ڈاکٹر عارف علوی کی جماعت تحریکِ انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے اگرچہ واضح کیا ہے کہ عارف علوی نئے آرمی چیف سے متعلق سمری نہیں روکیں گے۔اس خبر پر بھی مبصرین کی توجہ ہے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے گزشتہ ہفتے صدر ڈاکٹر عارف علوی سے ملاقات کی اور اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ انہوں نے ملک کی مجموعی سیاسی اور اقتصادی صورتِ حال پر بات چیت کی تھی۔

اس وقت مختلف حلقوں میں یہ مباحثہ جاری ہے کہ صدر کا اس اہم تقرر کے عمل میں آئینی کردار کیا ہے جب کہ ماضی میں اس عمل کو کس طرح انجام دیا جاتا رہا ہے۔

یہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ پاکستان کے صدر آرمی چیف کی تقرری کے عمل میں کیا کردار ہے اور کیا وہ وزیر اعظم کی جانب سے بجھوائی جانے والی سمری کو مسترد، التواء یا واپس بجھوا سکتے ہیں۔

رواں ماہ کی 29 تاریخ کو پاکستان کے موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ریٹائر ہو رہے ہیں جب کہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ندیم رضا کی مدتِ ملازمت رواں ماہ میں ہی پوری ہو رہی ہے۔

آرٹیکل 243 کی شق تین کے مطابق وزیرِ اعظم کی سفارش پر صدر تینوں فورسز یعنی بری فوج، بحریہ اور فضائیہ کے سربراہان اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کو تعینات کریں گے۔

بعض مبصرین کے مطابق آئین میں درج اس مختصر طریقۂ کار کی وجہ سے بہت سی تشریح، ابہام اور توجیحات جنم لے رہے ہیں۔

آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر عارف علوی کو اصولی طور پر وزیرِ اعظم کی سفارش کو منظور کرنا چاہیے تاہم آئین انہیں اختیار دیتا ہے کہ وہ سمری کو نظرِ ثانی کے لیے دوبارہ وزیرِ اعظم کو ارسال کر سکتے ہیں۔

آئینی امور کے ماہر اور قانون دان حامد خان کہتے ہیں کہ آئین کی جس شق کے تحت فضائیہ اور بحریہ کے سربراہ کا تقرر کیا جاتا ہے، اسی شق اور عمل کے ذریعے ہی آرمی چیف کی تعیناتی ہوتی ہے البتہ وہ کہتے ہیں کہ جس قدر غیر معمولی اہمیت آرمی چیف کے تقرر کو دی جاتی ہے وہ فضائیہ، بحریہ کے سربراہ یا چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کو حاصل نہیں ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں حامد خان نے کہا کہ آئین کے مطابق آرمی چیف کی تعیناتی ایک معمول کا عمل ہے۔ اس تعیناتی کی سمری دیگر سمریوں کی طرح ہی ہے وزیرِ اعظم ہاؤس سے ایوانِ صدر ارسال کی جاتی ہے البتہ فوج کے سیاسی کردار اور ماضی میں لگنے والے مارشل لا کی وجہ سے یہ تقرر غیر معمولی بن چکا ہے۔

حامد خان کہتے ہیں کہ اس عمل میں اگرچہ حتمی اختیار وزیرِ اعظم کا ہی ہے البتہ آئینی طور پر صدر اسے التوا میں بھی ڈال سکتے ہیں جب کہ اس طرح یہ عمل زیادہ سے زیادہ 25 دن تک تاخیر کا شکار رہ سکتا ہے۔

ایوانِ صدر میں مشیر کے طور پر خدمات انجام دینے والے فاروق عادل کہتے ہیں کہ صدر کا ریاست کے معاملات میں کردار اگرچہ رسمی ہے البتہ سربراہِ ریاست کے طور پر کسی بھی اہم تقرر ی اور قانون سازی کے لیے صدر کے دستخط سے اعلامیے کا جاری ہونا لازم ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں فاروق عادل نے کہا کہ آرمی چیف کے تقرر میں اصل اختیار وزیرِ اعظم کا ہے البتہ صدر کی منظوری کی ناگزیر ضرورت کے بغیر کوئی بھی تقرر عمل میں نہیں لایا جاسکتا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ صدر کسی بھی سمری کو 15 دن تک التوا میں ڈال سکتے ہیں یا وزیرِ اعظم کو نظرِ ثانی کے لیے دوبارہ ارسال کر سکتے ہیں تاہم اگر وزیرِ اعظم دوبارہ وہی سمری ارسال کرتے ہیں تو وہ 10 روز کے بعد اس کی خود بخود قانونی حیثیت بن جاتی ہے۔

ایسے میں اگر صدر عارف علوی آرمی چیف کی تعیناتی کی وزیرِ اعظم کی سمری کو التوا میں ڈالتے ہیں تو کیا اس سے کوئی بحرانی صورتِ حال پیدا ہونے کا خدشہ ہے؟ اس بارے میں حامد خان کہتے ہیں کہ اس اہم تعیناتی کے عمل میں اگر صدر عارف علوی کی جانب سے تاخیر کی گئی تو اس کے بہت سے معاملات پر اثرات مرتب ہوں گے۔

وہ کہتے ہیں کہ صدر کو اصولی طور پر وزیرِ اعظم کی سفارش ماننی چاہیے کیوں کہ وہ اس عمل کو صرف التوا کا شکار کر سکتے ہیں جب کہ آئین کے مطابق حتمی طور پر انہیں وزیرِ اعظم کی سفارش ہی ماننی ہوگی۔

فاروق عادل سمجھتے ہیں کہ آرمی چیف کا تقرر معمول کا عمل نہیں ہے لہٰذا اس حوالے سے وزیرِ اعظم ہاؤس اور ایوانِ صدر کے درمیان معاملات پہلے طے کیے جائیں گے جس کے بعد سمری ارسال کی جائے گی تاکہ کوئی بحرانی صورت حال پیدا نہ ہو۔

یاد رہے کہ تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے 26 نومبر کو راولپنڈی میں کارکنوں کو جمع ہونے کی کال دی ہے جس سے خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ اس تقرر کے عمل کو متاثر کر سکتے ہیں۔

دوسری جانب وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زردار نے ہفتے کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے عمران خان سے کہا تھا کہ وہ اپنے لانگ مارچ کی تاریخ کو آرمی چیف کی تعیناتی کے عمل کے ایام کے بعد رکھیں تاکہ فوج میں قیادت کی تبدیلی کا عمل متاثر نہ ہو۔

قیاس آرائیوں کے ماحول میں پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ فوج کے اعلیٰ ترین عہدوں یعنی چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی اور آرمی چیف کے تقرر کا عمل شروع ہو چکا ہے، جسے تمام تر آئینی تقاضوں کے مطابق 25 نومبر تک مکمل کر لیا جائے گا۔

XS
SM
MD
LG