پاکستان کی وزیرِ مملکت برائے خارجہ اُمور حنا ربانی کھر ایک روزہ دورہ کابل کے بعد اسلام آباد واپس پہنچ گئی ہیں۔ پاکستان کی اعلٰی سفارت کار کے اس دورے کو پاکستان اور افغان طالبان کے تعلقات اور خطے کی صورتِ حال کے تناظر میں اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہا ہے۔
حنا ربانی کھر منگل کی صبح کابل پہنچیں جہاں اُنہوں نے افغانستان میں طالبان حکومت کے نائب وزیرِ اعظم عبدالسلام حنفی اور وزیرِ خارجہ امیر خان متقی سمیت اعلٰی حکام سے ملاقاتیں کیں۔
دفتر خارجہ سے جاری بیان کے مطابق کابل میں ہونے والی ان ملاقاتوں میں افغان وزیر معدنیات اور پیٹرولیم شہاب الدین دلاور بھی موجود تھے۔ پاکستان کے نمائندۂ خصوصی برائے افغانستان محمد صادق بھی ملاقات میں شریک ہوئے۔
رواں سال شہباز شریف حکومت آنے کے بعد موجودہ کابینہ کے کسی وزیر کا یہ پہلا دورۂ کابل تھا۔
افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر منصور احمد خان کہتے ہیں کہ افغانستان پاکستان کا ایک قریبی ہمسایہ ملک ہے لہذا اس کے ساتھ سیاسی، سفارتی اور حکومتی سطح پر رابطے بہت ضروری ہیں جو کہ گزشتہ کئی ماہ سے دونوں طرف سے نہیں ہوئے تھے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کی وزیرِمملکت برائے خارجہ اُمور کا یہ دورہ خوش آئند ہے جو کہ دونوں ملکوں کے درمیان دوطرفہ اور علاقائی معاملات میں تعاون اور اشتراک کو فروغ دے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کا طالبان کے ساتھ سفارت کاری کا جو تجربہ رہا ہے اس کے مطابق وہ کہہ سکتے ہیں کہ طالبان بات چیت کے ذریعے معاملات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ لیکن ان کے بقول یہ رابطہ کاری مسلسل اور بغیر کسی وقفے کے ہونی چاہیے تاکہ معاملات میں کوئی اُلجھاؤ یا رکاوٹ پیدا نہ ہو۔
منصور احمد خان کہتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کئی مسائل اور تنازعات بھی پائے جاتے ہیں جن میں قابلِ ذکر سرحدی سلامتی اور ٹی ٹی پی سے متعلق معاملات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے مفاد میں ہے کہ دونوں قریبی ہمسایہ ملکوں کے تعلقات بہتر ہوں اور اس دورے کے دوران دو طرفہ امور، تجارت و سفری مشکلات کے حل کے ساتھ ساتھ ان چیلنجز پر بھی بات کی جانی چاہیے جو کہ دوطرفہ تعلقات اور تعاون کے فروغ میں حائل ہیں۔
'افغان طالبان چاہتے ہیں کہ پاکستان اُنہیں تسلیم کرنے کی لابی کرے'
افغان تجزیہ نگار فہیم سادات کہتے ہیں کہ حنا ربانی کھر کا دورہ بنیادی طور پر سیکیورٹی امور کے کے گرد ہی رہا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کے طالبان حکومت کے ساتھ مجموعی طور پر تعلقات اچھے ہیں اور طالبان بھی پاکستان اور چین کے کیمپ کی طرف ہی جھکاؤ رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس سب کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان مسائل موجود ہیں اور اسلام آباد عمران خان کی گزشتہ حکومت کی طرح طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کی لابی نہیں کررہا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اب جب کہ ٹی ٹی پی نے فائر بندی کے خاتمے کا اعلان کیا ہے تو پاکستان یہ دیکھنا چاہے گا کہ طالبان کی حکومتی پوزیشن کیا ہے۔ ان کے بقول اس دورے کا محور سرحدی معاملات اور ٹی ٹی پی ہی رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ توانائی کی قلت کی شکار پاکستانی حکومت چاہے گی کہ افغانستان سے کوئلے کی ترسیل بغیر رکاوٹ جاری رہے۔
فہیم سادات کہتے ہیں کہ پاکستان چاہے گا کہ طالبان کی جانب سے عالمی برادری کے تحفظات دور کیے جائیں۔
لیکن اُن کے بقول طالبان اپنے شدت پسند اور متوازن خیالات رکھنے والے رہنماؤں کے درمیان توازن رکھنا چاہتے ہیں اور اسی بنا پر خواتین کی تعلیم اور انسانی حقوق کے مسائل پر طالبان پیش رفت نہیں کرسکے۔
انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کے مطالبات ایسے ہیں جو سخت گیر خیالات رکھنے والے طالبان کو قبول نہیں ہیں اور کابل میں بیٹھی افغان قیادت ایسا خطرہ نہیں لے گی جس سے مقامی سطح پر اتحاد کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت طالبان کی پہلی ترجیح مقامی سطح پر اتحاد اور تمام صوبوں میں اپنی رٹ کا قیام ہے اور اس کے بعد عالمی برادری سے تسلیم کرنے کی بات آئے گی۔
فہیم سادات نے کہا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ عالمی برادری کے سامنے طالبان کا کوئی متبادل نہیں ہے اور اسی بنا پر عالمی برادری ایک طرف پابندیاں لگا رہی ہے اور دوسری طرف سفارتی رابطے کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ طالبان بھی جانتے ہیں کہ خطے کے ممالک اور عالمی برادری نہیں چاہتے کہ افغانستان میں خانہ جنگی ہو اور اسی بنا پر طالبان اطمینان رکھتے ہیں کہ کابل میں ان کے اقتدار کو خطرہ نہیں ہے۔
ان کے بقول اگر طالبان کا کوئی متبادل پیدا ہوگا تو ہی عالمی برادری کے مطالبات تسلیم کیے جائیں گے۔
یاد رہے کہ پاکستان نے ابھی تک افغانستان کی طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔
اسلام آباد کا یہ مؤقف رہا ہے کہ پاکستان طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے تنہا کوئی فیصلہ نہیں کرے گا بلکہ باقی دنیا کے ساتھ چلےگا۔ لیکن پاکستان عالمی برادری پر افغانستان کے ساتھ رابطے برقرار رکھنے پر زور دیتا آرہا ہے تاکہ افغانستان کو درپیش اقتصادی مشکلات کی وجہ سے وہاں کوئی انسانی بحران پیدا نہ ہو۔
خیال رہے کہ حنا ربانی کھر نے ایسے وقت میں کابل کا دورہ کیا ہے جب پیر کو کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے پاکستانی حکومت کے ساتھ جون سے جاری جنگ بندی معاہدے کو ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
منصور احمد خان کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کو کئی برسوں سے افغانستان میں پناہ ملتی رہی ہے جہاں سے وہ پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیوں کرتے رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے کابل میں بطور سفیر تعیناتی کے دوران ہی ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کا آغاز ہوا تھا جس کے نتیجے میں جنگ بندی پر اتفاق ہوا۔
تاہم وہ کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کی جانب سے گزشتہ روز جنگ بندی کے خاتمے کا اعلان حیرت انگیز ہے جو کہ اچھا شگون نہیں ہے۔
منصور خان کہتے ہیں کہ پاکستان کو اس دورے کے دوران افغانستان پر واضح کرنا چاہیے کہ ٹی ٹی پی یا کوئی اور گروہ پاکستان کے خلاف افغان سرزمین استعمال نہ کرے اور ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ان گروپس کی موجودگی میں سرحدی معاملات خراب رہیں گے اور ٹی ٹی پی کے جنگ بندی خاتمے کے اعلان کے بعد یہ معاملہ پیچیدہ ہوگیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مستقل امن و سکون کے لیے ضروری ہے کہ اس معاملے کو نمٹایا اور حتمی انجام تک لے جایا جائے۔
فہیم سادات نے کہا کہ پاکستان کی گزشتہ حکومت کے مشیر قومی سلامتی طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سرحد پر ہونے والے واقعات کے بارے میں کہتے رہے ہیں کہ یہ انفرادی گروپس کی کارروائیاں ہیں اور طالبان حکومت کی یہ پالیسی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ حنا ربانی کھر کے دورے کے دوران اسلام آباد جاننا چاہے گا کہ جنگ بندی کے خاتمے کے بعد افغان طالبان کس طرف اپنا وزن ڈالتے ہیں ٹی ٹی پی کی طرف یا پاکستان کی طرف۔
وہ کہتے ہیں کہ اب یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کا کیا ہو گا۔
فہیم سادات نے کہا کہ افغان طالبان پاکستان کو واضح بھی کردیں کہ وہ ٹی ٹی پی سے تعاون نہیں کریں گے تو بھی طالبان کے بعض دھرے ان کی مدد کرتے رہیں گے۔
ان کے بقول طالبان میں ایسے لوگ اور گروپ موجود ہیں جو پاکستان پر ٹی ٹی پی کو فوقیت دیں گے۔