بھارت کی دو ریاستوں گجرات اور ہماچل پردیش میں اسمبلی انتخابات اور دار الحکومت دہلی میں بلدیاتی الیکشن میں ووٹنگ کا مرحلہ مکمل ہو گیا ہے جب کہ متعدد نشریاتی اداروں کے ایگزٹ پول کے نتائج بھی سامنے آ رہے ہیں۔
اسمبلی انتخابات میں ووٹوں کی گنتی آٹھ دسمبر جمعرات کو ہوگی البتہ دارالحکومت نئی دہلی کے بلدیاتی انتخابات میں ووٹوں کی گنتی بدھ کو مکمل ہو گئی۔
انتخابی نتائج کے مطابق دہلی میونسپل کارپوریشن کے انتخابات میں عام آدمی پارٹی نے بی جے پی کو شکست دے دی ہے۔کارپوریشن پر بی جے پی کا گزشتہ 15 سال سےکنٹرول تھا۔
عام آدمی پارٹی نے کل 250 سیٹوں میں سے 134جیت لیں جب کہ بی جے پی کو 104 سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی۔ کانگریس کو محض آٹھ نشستیں ملی ہیں۔
بی جے پی کو 2017 میں 181، عام آدمی پارٹی کو 48 اور کانگریس کو 30 سیٹیں ملی تھیں۔ اس وقت کل سیٹوں کی تعداد 270 تھی۔
عوامی رجحانات میں پہلے ہی سامنے آ گیا تھا کہ دہلی میں عام آدمی پارٹی کو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پر برتری حاصل ہے تاہم دونوں میں سخت مقابلہ ہوگا۔
گجرات کا معاملہ
ایگزٹ پول سے جو رجحانات سامنے آ رہے ہیں ان کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) مسلسل ساتویں بار گجرات میں حکومت بنانے جا رہی ہے جب کہ ہماچل پردیش میں مسلسل دوسری بار اس کی کامیابی کے امکانات ہیں۔
گجرات میں بی جے پی 27 برس یعنی 1995 سے برسراقتدار ہے جب کہ ہماچل پردیش میں پانچ برس یعنی 2017 سے حکومت اس کے پاس ہے۔
دہلی کے بلدیاتی اداروں میں وہ 15 برس سے اکثریت میں تھی جب کہ ہماچل پردیش کی تاریخ رہی ہے کہ وہاں کوئی پارٹی مسلسل دوسری بار کامیاب نہیں ہوئی تھی۔ ہر پانچ سال پر حکومت بدلتی رہی ہے۔
ایگزٹ پول کے رجحانات کے مطابق گجرات میں 182 رکنی اسمبلی میں بی جے پی کو 117 سے 151 اور کانگریس کو 16 سے 51 کے درمیان نشستیں مل سکتی ہیں۔
عام آدمی پارٹی نے پہلی بار گجرات اسمبلی کا انتخاب لڑا ہے اور اس کا دعویٰ تھا کہ وہ ریاست سے بی جے پی حکومت کا خاتمہ کرکے اپنی حکومت قائم کرے گی البتہ رجحانات کے مطابق اسے 13 نشستیں مل سکتی ہیں۔
گجرات میں حکومت سازی کے لیے کم از کم 92 سیٹوں کی ضرورت ہوگی۔
بعض سیاسی مبصرین گجرات کو ہندوتوا سیاست کی تجربہ گاہ بھی کہتے ہیں۔ وہاں بی جے پی اور بالخصوص نریندر مودی کی زبردست گرفت ہے۔
سال 2014 میں پارلیمانی انتخابات میں کامیابی کے بعد وزیرِ اعظم بننے سے قبل نریندر مودی 13 سال تک ریاست کے وزیرِ اعلیٰ رہے۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی متعدد وجوہ سے اب بھی بھارت کے ایک مقبول رہنما ہیں۔ ان کی اس مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ ہندوتوا کی سیاست ہے، جس کی وجہ سے عوام مذہب کی بنیاد پر بٹے ہوئے ہیں اور چوں کہ ملک میں ہندو اکثریت ہے، اس لیے مودی کی مقبولیت پر کوئی اثر نہیں پڑ رہا۔
مودی کی مقبولیت زیرِ بحث
مبصرین کے مطابق حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے مہنگائی، بے روزگاری، مبینہ نفرت انگیز سیاست اور دیگر عوامی مسائل اٹھانے کے باوجود عوام پر نریندر مودی کی گرفت قائم ہے۔ وہ 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں تیسری بار مسلسل وزیرِ اعظم بننے کے ہدف پر کام کر رہے ہیں۔
بھارت کی 137 برس قدیم کانگریس پارٹی کو گجرات میں 2017 میں 77 نشستیں ملی تھیں لیکن اس بار اسے اس کی نصف ملنے کا اندیشہ ظاہر کیا اج رہا ہے۔
ہماچل پردیش کی 68 رکنی اسمبلی میں بی جے پی اور کانگریس میں کانٹے کی ٹکر ہے۔ ایگزٹ پول کے مطابق ریاست میں بی جے پی 24 سے 34 اور کانگریس 30 سے 40 کے درمیان سیٹیں جیت سکتی ہے۔ اگر وہاں بی جے پی دوبارہ کامیاب ہو جاتی ہے تو وہ مسلسل دوسری بار کامیاب ہونے کا ریکارڈ بنائے گی۔
متعدد تجزیہ کاروں نے خاص طور پر گجرات کے سلسلے میں ایگزٹ پول کے رحجانات کو مسترد کیا ہے۔ ان کے بقول یہ رجحانات بی جے پی مخالف ووٹوں کے کانگریس اور عام آدمی پارٹی کے درمیان تقسیم ہو جانے کے امکان کی بنیاد پر پیش کیے جا رہے ہیں جب کہ ایسا نہیں ہوگا۔
یاد رہے کہ انتخابی مہم کے دوران تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ گجرات میں بی جے پی کو دشواریوں کا سامنا ہے اور اس بار عوام بہت زیادہ ناراض ہیں لہٰذا بی جے پی کی شکست اور کانگریس کی اقتدار میں واپسی کے امکانات قوی ہیں۔
زمینی حقائق مختلف ہونے کا دعویٰ
سینئر تجزیہ کار رئیس احمد لالی بھی ایگزٹ پول کے رجحانات کو سرے سے مسترد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ زمینی حقائق وہ نہیں ہیں جو پیش کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ہم نے زمین پر جو کچھ دیکھا ہے اور وہاں کے لوگوں سے جو گفتگو ہوئی ہے اس کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ گجرات میں بی جے پی کی یک طرفہ جیت نہیں ہو سکتی۔
ان کے خیال میں ایسے سیکٹرز میں بھی جو بی جے پی کے گڑھ مانے جاتے تھے، اس کو سخت مشکلات کا سامنا رہا ہے۔
ان کے مطابق گزشتہ دو انتخابات کے دوران کانگریس نے بی جے پی کو سخت ٹکر دی تھی۔ ان دونوں انتخابات میں مودی کو زبردست مقبولیت حاصل تھی۔ سوال یہ ہے کہ ایسے وقت جب کہ گجرات کے عوام بی جے پی حکومت سے ناراض ہیں تو وہ اتنی زبردست کامیابی کیسے حاصل کر سکتی ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس بار رائے دہندگان بہت خاموش رہے ہیں۔ نریند رمودی سے عوام کی توقعات پوری نہیں ہوئی ہیں۔ ایسے کئی مسائل ہیں جن کی وجہ سے رائے دہندگان بی جے پی حکومت سے خوش نہیں ہیں۔
ان کے بقول بی جے پی کے متعدد کونسلرز نے گفتگو کے دوران ان کو بتایا کہ بی جے پی کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔
بی جے پی زیادہ نشستوں کے لیے پر امید
وہ بی جے پی مخالف ووٹ کے کانگریس اور عام آدمی پارٹی میں تقسیم ہونے کے خیال کی تردید بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عوام کو اس کا احساس تھا کہ اگر ان کے ووٹ بٹ گئے تو بی جے پی کو فائدہ ہوگا لہٰذا انہوں نے بڑی سمجھداری سے پولنگ کی ہے۔
ان کا خیال ہے کہ عام آدمی پارٹی کو ایک درجن نشستیں مل سکتی ہیں جب کہ کانگریس کی گزشتہ الیکشن سے کم سیٹیں نہیں آئیں گی۔
ان کے مطابق بی جے پی کو 80 نشستوں کے قریب سیٹیں مل سکتی ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کانگریس حکومت بنا لے۔ وہ کہتے ہیں کہ اب مودی کی مقبولیت کافی حد تک کم ہو گئی ہے۔
ادھر بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ وہ گزشتہ انتخابات سے بھی زیادہ نشستیں حاصل کرے گی۔
اس کے مطابق وزیرِ اعظم مودی نے جو ترقیاتی کام کیے ہیں ان کی بنیاد پر عوام نے بی جے پی کو ووٹ دیا ہے اور آٹھ دسمبر کو یہ حقیقت سب کے سامنے عیاں ہو جائے گی۔