دنیا بھر کے سینکڑوں کارکن، اہلکار اور ماہرین واشنگٹن میں رواں ہفتے شروع ہونے والی 'عالمی انسدادِ بدعنوانی کانفرنس' میں شرکت کے لیے امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں جمع ہو رہے ہیں جہاں وہ حکومتوں اور اداروں کےنظام میں بدعنوانی کے خاتمے کے طریقے تلاش کریں گے۔
ہر دو سال بعد منعقد ہونے والی پانچ روزہ کانفرنس کو دنیا کا سب سے بڑا بین الاقوامی اینٹی کرپشن فورم سمجھا جاتا ہے۔
کرپشن پر نظر رکھنے والی عالمی واچ ڈاگ تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل اور امریکہ اس کی میزبانی کر رہے ہیں۔
انٹرنیشنل اینٹی کرپشن کانفرنس (آئی اے سی سی) کے نام سے جانے والے اس فورم میں جن سات موضوعات پر توجہ مرکوز ہو گی ان میں عالمی سلامتی، نسل اور موسمیاتی تبدیلی، ڈارک مارکیٹس یعنی تاریک منڈیاں اور مجرمانہ نیٹ ورک، کلیپٹوکریسی، منی لانڈرنگ اور انسدادِ بدعنوانی کے کارکنوں کی حفاظت شامل ہیں۔
آئی اے سی سی کے منتظمین کے مطابق یہ کانفرنس ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب بہت سی حکومتوں کی جانب سے انسدادِ بدعنوانی کے وعدوں پر عمل درآمد میں ناکامی کے بارے میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔
آئی اے سی سی کونسل کی سربراہ ہیوگیٹ لیبیلے نے کانفرنس کے آغاز میں بتایا کہ بدعنوانی عالمی خطرات کو ہوا دے رہی ہے جس کی وجہ سے ہر سال کھربوں ڈالر کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق بدعنوانی عدم مساوات کو فروغ دیتی ہے اور پوری دنیا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جرائم کو ہوا دیتی ہے۔
آئی اے سی سی کے منتظمین نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ناقص حکمرانی آمرانہ لیڈروں، ظالم حکومتوں اور منظم مجرمانہ نیٹ ورکس کو عالمی معیشت پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی اجازت دیتی ہے۔
روس، چین، ایران اور افغانستان ان چند ممالک میں شامل ہیں جنہوں نے اس سال کی کانفرنس میں اپنا کوئی نمائندہ نہیں بھیجا ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے ترجمان، الیجینڈرو سالاس نے کہا ہے کہ کانفرنس تمام ممالک کے لیے کھلی ہے لیکن کچھ نے شرکت کرنے میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔
الیجینڈرو سالاس نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "بدقسمتی سے کچھ ممالک پر مطلق العنان حکومتوں یا کلیپٹوکریٹک حکومتوں کا غلبہ ہے جو ملک کے عوام پر سخت کنٹرول رکھنے میں خاصی دلچسپی رکھتی ہیں تاکہ کسی بھی ایسی چیز کو خاموش کر دیا جائے جو اپوزیشن یا آزاد سول سوسائٹی جیسی نظر آتی ہے۔"
وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے کانفرنس میں بتایا کہ امریکہ اندرون اور بیرونِ ملک بدعنوانی کا مقابلہ کر رہا ہے۔
سلیوان نے کہا کہ امریکی پالیسی بنیادی طور پر بدعنوانی کو بے نقاب کرنے والے صحافیوں سمیت بدعنوانی کے خلاف سرگرم کارکنوں کی حمایت پر مرکوز ہے اورہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ہمارا نظام بدعنوانی کے ساتھی کے بجائے ایک چیک کے طور پر کام کریں۔
قومی سلامتی کے مشیر نے کہا کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے کرپٹ روسی امرا یا اولیگارکس کے تقریباً 30 ارب ڈالر کے اثاثے ضبط کر لیے ہیں۔
امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی کی منتظم سامنتھا پاور نے کہا کہ "بدعنوانی اب صرف انفرادی آمروں کے بارے میں نہیں ہے کہ وہ بڑے پیمانے پر رہنے کے لیے ملک کی دولت کو لوٹ رہے ہیں۔ یہ ان کی سرحدوں سے باہر سہولت کاروں کی مدد سے حکومت کے ایک پورے نظام کی تعمیر کے بارے میں ہے۔"
اپنی سالانہ ریلیز میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کہا کہ تازہ ترین عالمی کرپشن پرسیپشن یعنی بدعنوانی کے متعلق تصورات انڈیکس کے مطابق، انسداد بدعنوانی کی کوششوں میں کئی برس سے کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہوئی۔
یہ انڈیکس حکومت اور نجی شعبے میں بدعنوانی کے بارے میں عوامی تاثرات کی بنیاد پر ممالک کی درجہ بندی کرتا ہے۔
سن 2021 میں انڈیکس نے ڈنمارک، فن لینڈ اور نیوزی لینڈ کو سب سے کم کرپٹ جب کہ جنوبی سوڈان، شام اور صومالیہ کو 180 حکومتوں میں سب سے زیادہ کرپٹ قرار دیا تھا۔
گزشتہ کچھ برس کے دوران امریکہ میں بدعنوانی کے بارے میں تصورات میں اضافہ ہوا ہے جس سے ملک کی درجہ بندی 2017 میں 16ویں سے گر کر 2021 میں 27ویں نمبر پر آ گئی ہے۔
پچھلے سال امریکی حکومت نے ایک نئی انسدادِ بدعنوانی حکمتِ عملی کا آغاز کیا تھا جس میں بدعنوانی کے خلاف جنگ کو 'امریکی قومی سلامتی کا بنیادی مفاد' کہا گیا تھا۔
بدعنوانی کو ایک طویل عرصے سے ملکوں کا اندرونی مسئلہ سمجھا جاتا رہا ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بدعنوان حکام اور طاقت ور افراد کی دولت اور اثرورسوخ کے نیٹ ورکس کو قابو کرنے سے کچھ امیدیں بحال ہوئی ہیں جس کے بعد بدعنوانی کو ایک اعلیٰ بین الاقوامی ایجنڈا سمجھا جا سکتا ہے۔
اس پہلو پر تبصرہ کرتے ہوئے سالاس نے کہا کہ بدعنوانی سے لڑنے کے علاوہ بھی ایسے عوامل ہیں جن کا تعلق جغرافیائی سیاست اور دیگر معاملات سے ہے۔
ان کے بقول پیسہ چھپانے ، ڈرٹی منی کی منتقلی اور پیسے چوری کرنے والوں کو اسے چھپانے کے سہولت کاروں جیسے اہم مسائل کے حل سے ہر ملک پر اثر پڑے گا۔