افغانستان میں طالبان کی جانب سے قتل کے مجرم کو سرِعام سزائے موت دینے پر اقوامِ متحدہ سمیت عالمی برادری نے سختِ ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے اس اقدام کی مذمت کی ہے اور اسے 'انتہائی پریشان کن' پیش رفت قرار دیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کے ترجمان جیریمی لارنس نے کہا کہ سرِعام موت کی سزا مقامی رہائشیوں اور کچھ طالبان حکام کی موجودگی میں دی گئی۔ جو یہ یاد دلاتی ہےکہ سرِعام سزائے موت 'ظالمانہ، غیر انسانی یا ذلت آمیز سلوک یا سزا' کی ایک شکل ہے۔
ادھر افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن نے افغانستان میں برسرِاقتدار طالبان حکومت سے مطالبہ کیا ہےاس طرح کی سزائے موت پر عمل درآمد فوری طور پر روکا جائے۔
امریکی وزارتِ خارجہ نے بھی طالبان کی جانب سے سرِعام سزائے موت کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ یہ طالبان کے 90 کی دہائی کے تاریکی دور میں واپسی کو ظاہرکرتی ہے۔
برطانیہ کے ناظم الامور نے ایک ٹوئٹ میں افغانستان میں پہلی سرِعام سزائے موت پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور اسے غیر انسانی اور پیچھے کی طرف واپسی کا قدم قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ برطانیہ تمام حالات میں سزائے موت کی مخالفت کرتا ہے۔
واضح رہے کہ افغانستان میں طالبان نے فوجداری انصاف کے لیے اسلامی قانون کی سخت سزائیں نافذ کرنا شروع کردی ہیں۔ بدھ کو طالبان نے اقتدار میں آنے کے بعد پہلی مرتبہ ایک قتل کے مجرم کو سرِعام سزائے موت دی۔
طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ سزا پانے والا شخص قتل کا مجرم تھا۔
انہوں نے بتایا کہ سرِعام سزائے موت پر عمل درآمد افغانستان کے صوبہ فراہ کے ایک اسپورٹس اسٹیڈیم میں کیا گیا۔ اس موقع پر طالبان کے اعلیٰ حکام بشمول چیف جسٹس مولوی عبدالحکیم، نائب وزیرِاعظم عبدالغنی برادر، وزیرِ داخلہ سراج الدین حقانی، وزیر برائے امر بالمعروف ونہی عن المنکر محمد خالد حنفی ودیگر افراد موجود تھے۔
مجاہد نے واضح کیا کہ موت کی سزا پانے والے شخص تاج میر ولد غلام سرور پر طالبان کی اعلیٰ عدالتوں اور بعد ازاں اپیلٹ ٹریبونلز میں مقدمہ چلایا گیا، جہاں اس نے فراہ صوبے کے ایک رہائشی مصطفیٰ کو 'چاقو کے وار سے قتل کرنے' اور موٹر سائیکل سمیت ان کا سامان چرانے کا اعتراف کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ یہ شخص مجرم پایا گیا تھا اور قاتل کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ سزائے موت 'قصاص' کے قانون کے مطابق دی گئی جس میں اس شخص کو اسی طرح سزا دی جاتی ہے جس طرح متاثرہ شخص کو قتل کیا گیا۔
ترجمان نے دعویٰ کیا کہ ''مجرم کو مقتول کے والد نے اسالٹ رائفل سے تین گولیاں ماریں۔''
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ شرعی سزا کے نفاذ کے فیصلے کا 'بہت احتیاط' سے جائزہ لیا گیا اور طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہبت اللہ اخوندزادہ نے اس کی منظوری دی۔
وائس آف امریکہ کے نذرالاسلام کے مطابق طالبان کی جانب سے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ساتھ شیئر کیے جانے والے ایک آڈیو پیغام کے مطابق طالبان رہنماؤں نے مقتول کے ورثا سے عام معافی کی درخواست کی جس سے مقتول کی والدہ نے اتفاق نہیں کیا۔
مقتول کی والدہ کے مطابق انہوں نے طالبان کی جانب سے قاتل کی معافی کو اس وجہ سے مسترد کیا کیوں کہ اس طرح سے وہ مستقبل میں اس قسم کی مزید کارروائیاں کر سکتا تھا۔
خیال رہے کہ سن 1996 سے 2001 تک طالبان کے سابقہ دورِ حکومت میں کھلے عام کوڑوں اور پھانسیوں کی سزائیں دی جاتی تھیں، جس میں مقامی افراد کی شرکت کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔اپنے پہلے دور حکومت میں طالبان نے ستمبر 1996 میں سابق افغان صدر ڈاکٹر نجیب کو ہلاک کر کے ان کی لاش کو کھمبے پر لٹکا دیا تھا۔
تاہم اگست 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے کئی افراد کو کوڑے مارنے کی سزائیں سنائی گئیں۔ لیکن سرِعام دی جانے والی یہ پہلی سزائے موت ہے ۔
ادھر طالبان کے اس اقدام کو عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ طالبان شریعت کی آڑ میں پورے ملک میں خوف کی فضا پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
افغانستان کے ایک سابق صوبائی گورنر محمد حلیم فدائی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں حدود اور قصاص کے قوانین سے کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن انہیں ڈر ہے کہ طالبان ان قوانین کو انتقام کے طور پر نہ اپنا لیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ گزشتہ ڈیڑھ سال کے طالبان دور حکومت میں ایسے بے شمار واقعات سامنے آئے ہیں جن میں ان کے اپنے لوگوں کو ظلم اور بربریت کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے لیکن ان کے متعلق شریعت کے قوانین کے تحت سزائیں سامنے نہیں آئی ہیں۔
محمد حلیم فدائی کے مطابق جب طالبان نے کابل کی باگ ڈور سنبھالی تو یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ وہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران بہت کچھ سیکھ چکے ہوں گے۔ ان کی سیاست میں پختگی آ گئی ہو گی۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا کچھ نظر نہیں آ رہا ہے۔
انہوں نےکہا خدشہ ہے کہ آنے والے دور میں طالبان آزادی اظہار اور حقوق کے لیے سرگرم خواتین اور طالبان کے نظام پر تنقید کرنے والوں کو خوارج یا باغی قرار دیں گے اور پھر ان پر انتقام کی آڑ میں حدود اور قصاص کو بطور آلہ استعمال کریں گے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے طالبان کی جانب سے سرِعام موت کی سزا کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان کا یہ اقدام ملک میں انسانی حقوق کی خطرناک خلاف ورزی ہے۔
ایک بیان میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا تھا کہ طالبان انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کو مکمل نظر انداز کرتے ہوئے انسانی حقوق کے اصولوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہے ہیں۔