افغانستان کے دارالحکومت کابل میں پاکستان کے سفارتی عملے پر فائرنگ کے واقعے کے بعد دونوں ملکوں کے مستقبل کےتعلقات کے بارے میں ایک نئی بحث نے جنم لیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق دو دسمبر کو پاکستان کے ناظم الامور عبیدالرحمان نظامانی کواُس وقت نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی جب وہ سفارت خانے کے احاطے میں معمول کی چہل قدمی کررہے تھے۔
اس حملے میں سفارت خانے کا ایک محافظ زخمی ہوا تھا جس کی حالت خطرے سے باہر بتائی جاتی ہے جب کہ حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی تھی۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پیر کو ایک ٹوئٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ پاکستانی سفارت خانے پر گولی چلانے والے شخص کو گرفتار کر لیا ہے جو داعش کا کارکن اور غیر ملکی شہری ہے۔
ان کے بقول، "تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ سفارت خانے پر حملہ داعش اور باغیوں نے مشترکہ طور پر کیا تھا جس کےپیچھے کچھ غیر ملکی گروہوں کا ہاتھ ہے اور اس کا مقصد دو برادر ممالک کے درمیان بداعتمادی پیدا کرنا تھا۔
طالبان ترجمان کا بیان ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب پاکستانی سفارت خانے میں ناظم الامور عبیدالرحمان کابل سے اسلام آباد واپس آ گئے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کسی بھی ملک کے سفارتی عملے پر کسی دوسرے ملک میں جان لیوا حملہ بڑاواقعہ ہوتا ہے۔
افغان امور کے ماہر اور سینئر صحافی سمیع یوسفزئی کہتے ہیں پاکستانی ناظم الامور کو نقصان پہنچنے کے خطرناک نتائج ہو سکتے تھے اور اس کا خمیازہ پاکستان میں مقیم افغان باشندوں کو مشکلات کی صورت میں بھگتنا پڑتا ۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت افغانستان میں سب سے مؤثر سفارت خانہ پاکستان کا ہے جو دنیا بھر کے مقابلے میں سب سے زیادہ ویزا افغان شہریوں کو فراہم کرتا ہے۔
ان کے بقول، "کابل کے وسط میں پاکستانی مشن پر حملہ ہونا ظاہر کرتا ہے کہ طالبان سیکیورٹی کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھانے میں ناکام ہیں۔"
اس سے قبل ستمبر میں روسی سفارت خانہ کے باہر ایک خود کش حملے میں کم از کم 20 افراد ہلاک ہوئے تھے اور حملے کی ذمے داری بھی داعش نے قبول کی تھی۔
'افغانستان میں پاکستان مخالف بیانیہ پنپ رہا ہے'
پاکستان نے سفارت خانے میں ناظم الامور پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے 'قاتلانہ حملہ' قرار دیا ہے۔
دوسری جانب کابل پولیس کے ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستانی سفارت خانے پر حملے کے ایک مشتبہ شخص کو حراست میں لیا ہے جس کے قبضے سے ہتھیار بھی برآمد کیے گئے ہیں۔
اس سے قبل افغان دفترِ خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ افغان حکومت عسکریت پسندوں کو کابل میں سفارتی مشنز کی سلامتی کے لیے خطرہ بننے کی اجازت نہیں دے گی۔
سینئر تجزیہ کار اور مصنف احمد رشید کا کہنا ہے کہ بد قسمتی سے افغانستان میں پاکستان مخالف بیانیہ تیزی سے پنپ رہا ہے اور طالبان بھی اسی بیانیے کے قائل ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ پانچ دہائیوں سے پاکستان نے افغانوں کے لیے بیش قدر قربانیاں دی ہیں لیکن افغان ان قربانیوں کو پسِ پشت ڈال رہے ہیں کیوں کہ وہ پاکستان کے اقدامات کو افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہیں۔
اُن کے خیال میں افغان عوام سمجھتے ہیں وقت آگیا ہے کہ پاکستان افغانستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی سے باز رہے اور افغانستان کی سیاست افغانوں کے حوالے کرے۔
کابل میں مقیم ایک افغان صحافی نے وائس آف امریکہ کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جو طالبان کابل کی گلیوں میں گشت کرتے نظر آتے ہیں ان کے رویے میں بھی پاکستان سے متعلق سختی پائی جاتی ہے۔
صحافی نے مزید کہا کہ طالبان شاید بھول چکے ہیں کہ انہیں دہائیوں سے پاکستان کی مدد حاصل تھی، اگر وہ اقتدار میں آ گئے ہیں تو اقتدار سے جا بھی سکتے ہیں اور اگر ایسا ہوا تو ملک ایک نئی خانہ جنگی کا شکار ہو جائے گا۔
احمد رشید کے بقول، "افغان مجاہدین اور پاکستانی ایجنسیوں کے درمیان جو اعتماد سازی اسی کی دہائی میں سوویت جنگ کے دوران فروغ پائی تھی وہ اب ویسی نہیں رہی۔ اعتماد سازی اسی صورت میں بحال ہو سکتی ہے جب پاکستان طالبان کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو جائے کہ اسلام آباد، کابل کے سیاسی معاملات میں دخل اندازی نہیں کر رہا۔"
پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد پر بھی حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ آئے روز افغان طالبان کی جانب سے خار دار تار کی کٹائی کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ کیوں کہ طالبان اب بھی اسے انٹرنیشنل بارڈر کے بجائے ڈیورنڈ لائن قرار دیتے ہیں۔
گزشتہ ماہ چمن سرحد پر اس وقت کشیدہ صورتِ حال پیدا ہو گئی تھی جب افغان حدود سے سرحد کے داخلی دروازے پر تعینات پاکستانی سیکیورٹی اہلکاروں پر فائرنگ کا واقعہ پیش آیا جس میں ایک اہلکار ہلاک اور دو زخمی ہوئے۔
اس واقعے کے بعد چمن سرحد کو آمد و رفت کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس سرحد سے یومیہ لگ بھگ 15 سے 20 ہزار افراد کراسنگ کرتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق ایک ایسے وقت میں جب طالبان حکومت کو تاحال دنیا کے کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کیا، افغانستان کے نو ارب ڈالر سے زائد کے اثاثے منجمد ہیں اور پاکستان کے ساتھ بھی تنازعات آئے روز شدت اختیار کر رہے ہیں تو ایسی صورتِ حال میں پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنی افغان پالیسی میں نرمی اختیار کرے۔
احمد رشید سمجھتے ہیں کہ افغان طالبان نے بھی پاکستان کے ساتھ نفرت پر مبنی پالیسی اختیار کر رکھی ہےجو کہ بہت عجیب ہے کیوں کہ گزشتہ چند عشروں کے دوران پاکستان نے جتنی مدد طالبان کی کی ہے اتنی کسی دوسرے ملک نے نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی فوجی قیادت تبدیل ہو گئی ہے اور امید ہے کہ فوج کے نئے سربراہ جنرل عاصم منیر ایک ایسی پالیسی مرتب کریں گے جس سے دونوں ملکوں کو فائدہ ہو گا۔