اسلام آباد —
پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرز کے سربراہ وحید احمد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حکومت کو اڑھائی ماہ قبل صورتِ حال سے متعلق آگاہ کردیا تھا کہ سیلاب کے باعث آنے والے دنوں میں کھانے پینے کی اشیاء کی درآمد میں اضافہ ہوگا اور اس کے لیے اقدامات بھی تجویز کیے تھے۔
پاکستان کے مرکزی بینک کی جانب سے نجی بینکوں کو ڈالر کی عدم فراہمی کے باعث درآمد کنندگان کی بیرونِ ممالک ادائیگیاں نہیں کی گئیں۔ جس کی وجہ سے کھانے پینے سمیت دیگر اشیاء کے کنٹینرز بندرگاہ پر پھنس گئے ہیں۔
کراچی کی بندرگاہ پر درآمدی پیاز، ادرک اور لہسن کے سیکڑوں کنٹینرز آ چکے ہیں لیکن بینکوں کی جانب سے ضروری دستاویزات کی عدم فراہمی کے باعث انہیں درآمد کنندگان کے حوالے نہیں کیا جا رہا۔
پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرز (پی ایف وی ای) نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ بندرگاہ پر پھنسے ہوئے کنٹینرز فوری جاری کرانے کے اقدامات یقینی بنائے۔
پی ایف وی ای کے مطابق اس وقت کراچی کی بندرگاہ پر پیاز کے 250، لہسن کے 104 اور ادرک کے 63 کنٹینرز پھنسے ہوئے ہیں جن کی مجموعی مالیت 55 لاکھ ڈالرز ہے۔
اگر درآمدی اجناس بازاروں تک نہ پہنچی تو ان کی قیمتوں میں مزید اضافے کا خدشہ ہے جس کے بعد پیاز جو اس وقت مارکیٹ میں 175 روپے فی کلو میں فروخت ہو رہا ہے اس کی تھوک (ہول سیل) قیمت میں 50 سے 80 روپے کلو تک اضافہ ہو سکتا ہے۔
پی ایف وی ای نے وزارتِ تجارت کو لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ اسٹیٹ بینک کو فوری اقدامات یقینی بنانے کا کہا جائے تاکہ ملک میں اشیائے ضروریہ کی قلت پیدا نہ ہو۔
حالیہ مہینوں میں پاکستان میں کنٹنیرز کو تاخیر سے کلیئر کرنے کی وجہ بینکوں کی جانب سے ڈالر کی کمی کی وجوہات بتائی جارہی ہیں یا لیٹر آف کریڈٹ (ایل سی) کھولنے کے لیے ڈالر کا زیادہ ریٹ بتایا جاتا ہے۔
پاکستان میں انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں خاصا فرق پایا جاتا ہے۔ بدھ کے روز انٹر بینک میں ڈالر کی قیمت 224 روپے تھی جب کہ اوپن مارکیٹ میں فی ڈالر 240 روپے کے لگ بھگ مل رہا تھا۔
'پاکستان دیوالیہ نہیں ہو رہا'
پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر سات ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں جس کے باعث پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے تاہم وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے منگل کو اپنے ایک بیان میں ان خدشات کی سختی سے تردید کی ہے۔
ماہرِ معیشت خرم شہزاد کہتے ہیں کہ پاکستان کے پاس اس وقت 40 دن کی درآمدات کے ذخائر ہیں اور اس سال 23 ارب روپے کے قرض کی ادائیگی بھی کرنا ہے۔البتہ پاکستان دیوالیہ نہیں ہو رہا لیکن اس سے بچنے کی منصوبہ بندی بھی نہیں ہو رہی۔
ان کے بقول پاکستان عالمی مالیاتی ادارے ( آئی ایم ایف) پروگرام میں ہونے کی وجہ سے دیوالیہ نہیں ہو گا لیکن معاشی استحکام کی کوئی حکمتِ عملی دکھائی نہیں دیتی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ڈالر کی کمی کے باعث ہم درآمد کی گئی کھانے پینے کی اشیا کی ادائیگی بھی نہیں کر پارہے اور حکومت چاہتے ہوئے بھی درآمدات کو زیادہ کم نہیں کرسکتی۔ کیوں کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم اپنی ضروریات پوری نہیں کر سکے ہیں۔
خرم شہزاد کے مطابق پاکستان کی 70 فی صد سے زائد درآمدات لازمی ہیں جس میں گندم اور دال جیسی کھانے کی اشیاء اور برآمدی سیکٹر کے لیے کپاس اور دیگر خام مال شامل ہے۔
پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرز کے سربراہ وحید احمد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حکومت کو اڑھائی ماہ قبل صورتِ حال سے متعلق آگاہ کردیا تھا کہ سیلاب کے باعث آنے والے دنوں میں کھانے پینے کی اشیاء کی درآمد میں اضافہ ہوگا اور اس کے لیے اقدامات بھی تجویز کیے تھے۔
ان کے بقول وہ ایسا پہلی مرتبہ دیکھ رہے ہیں کہ ان کے پیسے بینکوں میں موجود ہیں اور وہ ادائیگیاں کرنا چاہتے ہیں لیکن اسٹیٹ بینک کمرشل بینکوں کو ڈالر فراہم نہیں کررہا۔
وحید احمد کہتے ہیں وزارتِ تجارت نے انہیں مسئلے کے حل کے لیے اقدامات کی یقین دہانی کرائی ہے۔ان کے خیال میں اگر اسٹیٹ بینک نجی بینکوں کو ڈالر فراہم کردیتا ہے تو ایک روز کے اندر بندرگاہ پر پھنسے کنٹینرز درآمد کنندگان کے حوالے کردیے جائیں گے۔
وحید احمد نے بتایا کہ صرف کھانے پینے کی اشیاء کے ہی نہیں بلکہ دیگر کئی صنعتوں کے درآمدی کنٹینرز بھی جاری نہیں کیے جارہے کیوں کہ ان کی ادائیگیاں بھی ڈالرز کی عدم دستیابی کے باعث رکی ہوئی ہیں۔
صارفین کے حقوق کی تنظیم کے صدر محسن بھٹی کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک میں طلب و رسد کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے تاجروں کو سہولت فراہم کرے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ حالیہ سیلاب کے سبب ملک میں کھانے پینے کی اشیاء کی کمی کے خدشات کے باوجود بروقت اقدامات نہ کرنا غفلت کے زمرے میں آتا ہے۔ حکومت کو اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ مہنگائی کی وجہ سے عوام کی قوت خرید پہلے ہی کم ہورہی ہے اور ایسے میں حکومت کو چاہیے کہ وہ اشیائے ضروریہ کی سستے داموں فراہمی یقینی بنائے اور اس مقصد کے لیے درآمدی ٹیکس ختم کرتے ہوئےہمسایہ ممالک سے تجارت کی اجازت دی جائے۔