رسائی کے لنکس

پاکستان: ’آن لائن توہین مذہب‘ کے الزام میں مزید چار افراد کو سزائے موت سنا دی گئی


  • توہینِ مذہب کے مقدمات سامنے لانے والے وکلا کے ایک گروپ کے مطابق راولپنڈی میں چار افراد کو توہینِ مذہب کے الزامات میں سزائے موت سنائی گئی ہے۔
  • لیگل کمیشن آن بلاسفیمی پاکستان (ایل سی بی پی) نامی نجی گروپ توہینِ مذہب کے مقدمات سامنے لانے میں سب سے زیادہ سرگرم ہے۔
  • انسانی حقوق پر نظر رکھنے والے ایک حکومتی کمیشن کے مطابق آن لائن توہینِ مذہب کے مقدمات میں تیزی آئی ہے اور اس کا سامنا کرنے والوں کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے۔
  • توہینِ مذہب کے الزامات میں قید افراد کے اہل خانہ کے بنائے گئے ایک گروپ نے راولپنڈی میں چار افراد کو سزائے موت سنانے کی تصدیق کی ہے۔

ویب ڈیسک _پاکستان کی ایک عدالت نے توہینِ مذہب پر مبنی مواد آن لائن پوسٹ کرنے کے الزام میں مزید چار افراد کو سزائے موت سنا دی ہے۔

توہین آمیز مواد سے متعلق مقدمات سامنے لانے والے وکلا کے نجی گروپ سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل نے پیر کو خبر رساں ادارے اے ایف پی کو ان سزاؤں سے متعلق بتایا ہے۔

لیگل کمیشن آن بلاسفیمی پاکستان (ایل سی بی پی) کے نام سے سرگرم اس نجی گروپ سے تعلق رکھنے والے راؤ عبد الرحیم نے بتایا کہ چاروں افراد کو راولپنڈی میں سزائے موت سنائی گئی ہے۔

پاکستان میں توہینِ مذہب کے الزامات کی نوعیت بہت حساس ہے اور کئی مرتبہ مشتعل ہجوم کی جانب سے محض الزام کی بنیاد پر کسی شخص کو جان سے ماردینے کے واقعات بھی سامنے آتے رہے ہیں۔

پاکستان میں ’’آن لائن بلاسفیمی‘‘ کے الزامات کی بنیاد پر مقدمات کے اندراج میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جب کہ کئی نجی گروپس سینکڑوں نوجوانوں کے خلاف مبینہ توہینِ مذہب کے مقدمات درج کرا چکے ہیں۔

وکیل راؤ عبدالرحیم نے اے ایف پی کو بتایا: ’’جمعے کو چار افراد کو پیغمبرِ اسلام اور قرآن کے خلاف اہانت آمیز مواد آن لائن پھیلانے پر موت کی سزا دی گئی ہے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ ایل سی بی پی نے حالیہ مقدمات میں ’’سنگین جرائم کے لیے استعمال ہونے والی ڈیوائسز سے متعلق فارنزک شواہد پیش کیے۔‘‘

توہینِ مذہب کے متعدد مقدمات میں عدالت کی جانب سے موت کی سزا سنائے جانے کے باوجود آج تک کسی سزا پر عمل درآمد نہیں ہوا۔

توہینِ مذہب کے الزامات میں سزا پانے والے بعض افراد کے اہلِ خانہ نے ایک دوسرے کی مدد کے لیے ایک گروپ بنایا ہوا ہے۔ اس گروپ کے ایک رکن نے بھی اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے عدالت کی جانب سے چار افراد کو سزائے موت سنانے کی تصدیق کی ہے۔

اپنے تحفظ کے لیے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر گروپ کے رکن کا کہنا تھا کہ اس کیس میں بھی گرفتاریوں اور استغاثہ کی کارروائی کا پیٹرن وہی ہے جو ماضی کے کیسز میں دیکھا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ ان کیسز میں سزا پانے والے نوجوانوں کی زندگی کے بہترین سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزر جائیں، ایسے کیسز میں اضافے کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیشن بنایا جائے۔

شہری حقوق کی تنظیموں اور پولیس کے مطابق آن لائن توہینِ مذہب کے کیسز زیادہ تر نجی طور پر کام کرنے والے’’سرگرم گروپس‘‘ سامنے لاتے ہیں اور ان کے ساتھ کئی رضاکار بھی انٹرنیٹ پر نگرانی کرتے ہیں۔

ایل سی بی پی آن لائن توہینِ مذہب کے کیسز سے متعلق پاکستان کا سب سے زیادہ سرگرم گروپ ہے۔

اکتوبر میں اس گروپ کے رہنماؤں میں شامل شیراز احمد فاروقی نے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ ’’خدا نے انہیں اس عظیم مقصد کے لیے چنا ہے۔‘‘

نیشنل کمیشن فور ہیومن رائٹس نے گزشتہ برس اکتوبر میں ایک رپورٹ جاری کی تھی جس کے مطابق 767 افراد توہینِ مذہب کے الزامات میں جیلوں میں بند ہیں اور مقدمات کے منتظر ہیں۔

کمیشن کے مطابق توہینِ مذہب کے مقدمات کا سامنا کرنے والے ان افراد میں نوجوانوں کی اکثریت ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ان مقدمات میں قانونی عمل کی واضح بے ضابطگیاں اور متعدد مراحل پر ضابطوں کی کھلی خلاف ورزیاں دیکھی گئی ہیں۔

یہ مقدمات بہت طویل عرصے تک جاری رہتے ہیں جب کہ ان میں دی جانے و الی اکثر موت کی سزائیں سپریم کورٹ میں اپیل کے بعد عمر قید میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔

گزشتہ برس ستمبر میں درجنوں زیرِ التوا کیسز نمٹانے کے لیے خصوصی عدالت بھی بنائی گئی تھی۔

اس خبر کے لیے مواد خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے لیا گیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG