رسائی کے لنکس

 'دہشت گردوں سے نمٹنا پاکستان اور امریکہ دونوں کے مفاد میں ہے' 


امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس، فائل فوٹو
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس، فائل فوٹو

پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا میں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں سے نمٹنے کے لیے امریکہ نے پاکستان کو تعاون کی پیش کش کی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کی یہ پیش کش خوش آئند ہے کیوں کہ ٹی ٹی پی کے معاملے پر امریکہ نے ماضی میں بھی پاکستان کے ساتھ تعاون کیا ہے۔

امریکہ کی طرف سے یہ پیش کش ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اتوار کو شدت پسندوں نے خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع بنوں میں انسداد دہشت گردی کے ایک مرکز میں بعض سیکیورٹی اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا تھا۔

پیر کو واشنگٹن میں پریس بریفنگ کے دوران بنو ں کی صورتِ حال کےبارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا تھا کہ امریکہ بنوں کی صورتِ حال سے آگاہ ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ افغانستان کے اندر اور پاکستان، افغانستان سرحد پر دہشت گرد گروپس کے خلاف کارروائی کے لیے پاکستان اور امریکہ شراکت دار رہے ہیں۔

اُن کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کے لیے پاکستان کی مدد کرنےکے لیے تیار ہے۔

خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کی لہر اور امریکی پیش کش کی اہمیت

ماہرین کے مطابق امریکہ اور پاکستان کی افغان طالبان کے حوالے سے پالیسی میں اختلافِ رائے ہو سکتا ہے، لیکن ٹی ٹی پی سمیت دیگر عسکریت پسندوں گروپس کو افغان سرزمین استعمال کرنے سے روکنا دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔

دفاعی اور سیکیورٹی اُمور کے تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) سعد محمد کہتے ہیں کہ امریکہ کی طرف سے انسدادِ دہشت گردی میں تعاون کی پیش کش خوش آئند ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے۔ ان کے بقول باہمی تعاون اور شراکت داری سے اس معاملے سے نمٹا جا سکتا ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ ماضی کی طرح دونوں ممالک انسدادِ دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے تعاون کر سکتے ہیں جس میں انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ بھی شامل ہے۔

امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان دوحہ میں طے پانے والے معاہدے کی اہم شرط تھی کہ افغانستان کی سر زمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔ لیکن ماہرین کے مطابق اس کےباجود کئی دہشت گرد گروپ اب بھی افغانستان میں سرگرم ہیں۔

بریگیڈیئر (ر) سعد محمد کہتے ہیں کہ افغانستان سے انخلا کے باوجود خطے میں امریکہ کے مفادات ہیں کیوں کہ وہ نہیں چاہتا کہ افغانستان میں دہشت گرد گروپس مضبوط ہوں۔

اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں القاعدہ، اسلامک موومنٹ آف ازبکستان (آئی ایم یو)، مشرقی ترکستان اسلامک موومنٹ (ای ٹی آئی ایم)، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور داعش-خراساں(آئی ایس-کے) کے شدت پسند گروپ موجود ہیں۔

بریگیڈیئر (ر) سعد محمد کہتے ہیں کہ یہ شدت پسند گروپ نہ صرف علاقائی ممالک کے لیے خطرہ ہیں بلکہ ان میں بعض گروپ پوری دنیا کے لیے خطرے کا باعث ہیں۔

'پاکستان اور امریکہ کے تعلقات بہتر ہوئے ہیں'

دوسری جانب افغان امور کے ماہر اور سینئر صحافی طاہر خان کہتے ہیں کہ امریکہ کی طرف سے پاکستان کو انسداد دہشتِ گردی میں تعاون فراہم کرنے کی پیش کش اس بات کی مظہر ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات بہتر ہوئے ہیں۔

طاہر خان کہتے ہیں کہ امریکہ کی طرف سے دسمبر کے شروع میں ٹی ٹی پی کے نائب امیر قاری امجد کو دہشت گردوں کی عالمی فہرست میں شامل کرنے سے بھی عیاں ہے کہ پاکستان اور امریکہ کا انسدادِ دہشت گردی میں تعاون جاری ہے۔

طاہر خان کے خیال میں امریکہ کی طرف سے پاکستان کو انسدادِ دہشت گردی کے لیے تعاون کی پیش کش اہم ہے کیوں کہ اگر خطے میں عسکریت پسندی کی کارروائیاں بڑھتی ہیں تو یہ خطے میں عدم استحکام کا باعث بن سکتا ہے۔

'ڈرون حملے خارج ازامکان نہیں ہیں'

یاد رہے کہ ماضی میں تحریک طالبان کے کئی سرکردہ رہنماؤں کو جو پاکستان میں عسکریت پسند ی کی سرگرمیاں کرتے رہے ان کو بھی امریکی ڈرون حملوں سے نشانہ بنا یا گیا تھا۔

اگرچہ پاکستان کی طرف سے اس بات کو تسلیم نہیں کیا گیا ہے لیکن بریگیڈیئر (ر) سعد محمد کہتے ہیں کہ اب تحریک طالبان پاکستان کے کئی سرکردہ رہنما پاکستان کی سرحد کے پار مقیم ہیں اور اس حوالے سے ان سے نمٹنے کے لیے امریکہ پاکستان کی مدد کر سکتا ہے۔

لیکن طاہر خان کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو ایک مشکل صورتِ حال کا سامنا ہے کیوں کہ شدت پسند گروپ گوریلا کارروائیاں کرتا ہے جس سے نمٹنا مشکل ہوتا ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ اس حوالے سے پاکستان اور امریکہ کئی سطح پر باہمی تعاون کرسکتے ہیں جن میں انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے کے ساتھ ڈرون حملوں کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔

طاہر خان کہتے ہیں کہ شدت پسند وں کے خلاف بڑا منظم سیکیورٹی آپریشن ممکن نہیں ہے کیوں کہ ٹی ٹی پی کے زیادہ تر شدت پسند گروپ افغانستان میں مقیم ہیں۔

XS
SM
MD
LG