پاکستان میں سرگرم کالعدم تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)کی جانب سے نومبر میں جنگ بندی معاہدہ ختم کرنے کے بعد جہاں دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے وہیں بلوچستان میں کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں نے بھی سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں اچانک اضافہ کر دیا ہے۔
بلوچستان کے آٹھ اضلاع میں 25 دسمبر کوایک ہی دن میں نو بم دھماکوں سمیت سیکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹوں پر فائرنگ کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے تھے۔صرف کوئٹہ میں چھ گھنٹے کے دوران دستی بم دھماکوں کے چھ واقعات رونما ہوئے جن میں تین پولیس اہلکاروں سمیت 12 افراد زخمی ہوئے۔
کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے بیشتر حملوں کی ذمے داری قبول کی تھی۔
سال 2022 کے آغاز سے ہی بلوچستان میں کالعدم بلوچ علیحدگی پسندتنظیموں کے حملوں میں غیرمعمولی اضافہ دیکھنے میں آیا تھا جس میں سیکیورٹی فورسز کو خصوصی طور پر ہدف بنایا جا رہاہے۔
محکمۂ داخلہ بلوچستان کی رپورٹ کے مطابق صوبے میں گزشتہ سال کی نسبت رواں سال دہشت گردی کے واقعات میں 11 فی صد اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں رواں برس دہشت گردی کے 290 واقعات میں 125 افراد ہلاک اور 417 زخمی ہوئے۔
صوبے میں اچانک دہشت گردی کے واقعات میں تیزی کے اسباب جاننے کے لیے وائس آف امریکہ نے سیکیورٹی امور کے ماہرین، قانون نافذ کرنے والے اداروں کےافسران اور بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کے معاملات سے باخبر مقامی صحافیوں سے بات کی ہے۔
کوئٹہ میں تعینات ایک سیکیورٹی افسر نے ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرنے کی ممانعت پر نام نہ شائع کرنے کی شرط پر بتایا کہ صوبے میں بم دھماکے اوردہشت گردی کے واقعات تو باقاعدگی سے ہوتے رہتے میں مگر اتوار کے روز ہونے والے بم دھماکوں کا تعلق بی ایل اے کے اہم ترین فیلڈ کمانڈر اسلم بلوچ عرف اچھو کی چوتھی برسی سے تھا۔
ان کے بقول ، جن رہنماؤں کی برسی کے موقع پربم دھماکے ہوتے ہیں، ان میں بلوچ سیاسی رہنما نواب اکبربگٹی، بلوچ نیشنل موومنٹ کے رہنما غلام محمد بلوچ، بی ایل اے کے بانی رہنما بالاچ مری اوراسلم اچھو شامل ہیں۔
سیکیورٹی افسر نے بتایا کہ کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں 14 اگست کو یومِ آزادی کے موقع پربھی دہشت گردی کی کاروائیاں کرتی رہی ہیں۔
اسلم اچھو بی ایل اے کے اہم رہنما تھے جنہیں سیکیورٹی اداروں نے نومبر 2018 میں چین کے قونصل خانے پر حملے کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا تھا۔ اس حملے کے ایک ماہ بعد ہی افغانستان کے شہر قندھار کے پوش علاقے عینو مینہ میں ایک مبینہ خودکش حملے میں اسلم اچھو اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ہلاک ہوگئے تھے۔ ان کی ہلاکت کے بعد بی ایل اے کی قیادت بشیر زیب نے سنبھال لی تھی۔
کوئٹہ میں تعینات سیکیورٹی افسر نے بتایا کہ جولائی 2020 میں بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے اتحاد "براس" کی تشکیل کے سبب بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہاہے۔
بلوچ علیحدگی پسند تنظیمّں بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف)، بلوچ لبریشن آرمی ( بی ایل اے)، بلوچ ری پبلکن آرمی (بی آر اے)اور بلوچ ری پبلکن گارڈز (بی آر جی)نے جولائی 2020 میں پاکستان میں چین کے مفادات کو نشانہ بنانےکے لیے 'براس' نامی اتحاد قائم کیا تھا۔ بعد ازاں سندھ کی ایک عسکریت پسند تنظیم سندھو دیش ریوولوشنری آرمی نے بھی اس اتحاد میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔
گلزار امام کی گرفتاری کے اثرات
سیکیورٹی اداروں نے ستمبر کے وسط میں گلزار امام نامی شخص کو گرفتار کیا تھاجنہیں بلوچستان میں شورش کے لیے اہم کردار قرار دیا جاتا ہے۔
گلزار امام نے رواں سال جنوری میں بلوچ نیشنلسٹ آرمی (بی این اے) نامی نئی علیحدگی پسند تنظیم تشکیل دی تھی۔
کوئٹہ کے سیکیورٹی افسر نے دعویٰ کیاہےکہ گلزارامام کی گرفتاری کے سبب حالیہ مہینوں میں بڑی تعداد میں بی ایل ایف اوربی ایل اے کے عسکریت پسند حکومتی کارروائیوں میں ہلاک یا گرفتار ہوئے ہیں۔
ان کے بقول، "بلوچستان بھر میں اتوار کو ہونے والے حملوں کے ذریعے 'براس' میں شامل تنظیمیں خصوصاً بی ایل اے اس تاثر کو رد کرنا چاہ رہی ہے کہ گلزار امام کی گرفتاری سے بلوچ مسلح تحریک پر کوئی بڑا اثر نہیں پڑا۔
گلزار امام کے منظر سے غائب ہونے پر بی ایل اے نے نومبر میں جاری ایک بیان میں کہا تھا کہ گلزار امام عرف شمبے لاپتا ہونے کے بعد سے ہی پاکستانی سیکیورٹی اداروں کی حراست میں ہیں۔
اعلامیے میں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ گلزار امام کی گرفتاری کب، کہاں اور کیسے ہوئی۔ لیکن سنگاپور میں قائم ایس راجارتنم اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز نامی سیکیورٹی تھنک ٹینک سے وابستہ محقق عبدالباسط کے مطابق گلزار امام کو ایران سے ترکیہ لینڈ کرنے پر گرفتار کرکے پاکستان کے حوالے کیا گیا تھا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے عبدالباسط نے کہا کہ "گلزارامام سے دورانِ تفتیش حاصل کی جانے والی معلومات نے پاکستانی سیکیورٹی اداروں کو مکران کے علاقے میں بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کے نیٹ ورک کو کمزور کرنے میں کافی مدد کی۔
عبدالباسط کے خیال میں گلزارامام کی گرفتاری کا بلوچ شورش پر کوئی زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔
حکمتِ عملی میں تبدیلی
سیکیورٹی ماہرین کاکہناہے کہ بلوچستان کی شورش کا رواں سال کا جائزہ لیا جائے تو بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں اپنی حکمتِ عملی میں منظم اورتجربہ کارظاہر ہورہی ہیں۔
محقق عبدالباسط کے مطابق بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں "گن اینڈ بم" دھماکوں کی حکمتِ عملی اختیار کرتے ہوئے سیکیورٹی فورسز کے کمپیوں پرحملے کررہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ رواں سال بی ایل اے کی جانب سے ہرنائی اورزیارت میں سیکیوریٹی اہلکاروں کویرغمال بناکراپنے قیدیوں کی رہائی کے لیے مذاکرات کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔
عبدالباسط کے بقول، بلوچ علیحدگی پسند گروہ اپنے اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے بلوچستان سے باہر بھی حملے کرتے ہیں جس کے لیے انہوں نے جنوری میں لاہورکے انارکلی بازار اوراپریل میں جامعہ کراچی میں چینی اساتذہ کی گاڑی پر خودکش حملے کی مثال دی۔