"میرا بھائی غلط وقت پر غلط مقام پر تھا۔" بدھ کے روز یہ بات برنارڈ فیلان کی بہن نے کہی۔ آئرش نژاد فرانسیسی ٹوور آپریٹر گزشتہ تین ماہ سے ایران میں زیرِ حراست ہیں۔
ایران میں احتجاجی مظاہروں کو تین ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا ہے اور احتجاج کو کچلنے کی حکومت کی کوششیں بھی جاری ہیں جن کے دوران گرفتار کیے جانے والوں میں غیر ملکی خصوصاً یورپی باشندے بھی شامل ہیں۔
’دی آئرش ٹائمز‘ سے بات کرتے ہوئے فیلان کے اہلِ خانہ نے بتایا کہ 64 سالہ فیلان کو ایرانی پولیس نے 3 اکتوبر کو گرفتار کیا اور انہیں مشہد کی وکیل آباد جیل میں رکھا گیا ہے۔ 'ٹائمز' کی رپورٹ کے مطابق وہ 15 دیگر افراد کے ساتھ ایک سیل میں بند ہیں۔
ایران نے فیلان کے خلاف متعدد الزامات عائد کیے ہیں جن میں ایران کے خلاف پراپیگنڈہ کرنا اور ایرانی پولیس کی تصویریں لینا شامل ہے جب کہ وہ ان تمام الزامات سے انکار کرتے ہیں۔
آئرش ٹائمز کے مطابق آئرش سیکیورٹی فورسز کا کہنا ہے کہ ان پر بڑھا چڑھا کر الزامات لگائے گئے ہیں تاکہ فرانس کی حکومت کو یہ پیغام دیا جا سکے کہ وہ ان معاملات سے دور رہے۔
فیلان فرانس میں رہتے ہیں اور فرانسیسی پاسپورٹ پر ایران پہنچے تھے۔
ستمبر میں ایک 22 سالہ کرد ایرانی خاتون مہسا امینی پولیس کی حراست میں ہلاک ہو گئی تھی۔ اسے ملک کی اخلاقی پولیس نے ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی کرنے پر حراست میں لیا تھا۔ اس کی موت نے ایران اور دنیا بھر میں مسلسل احتجاج کو جنم دیا۔
تہران نے دیگر مغربی ممالک کے علاوہ فرانس پر بھی یہ الازم لگایا ہے کہ وہ احتجاج کو بھڑکانے کی کوشش کر رہے ہیں، جب کہ فرانسیسی حکومت نے کہا ہے کہ اس کے شہریوں کو، جن کی تعداد کم از کم سات ہے، ریاستی یرغمال بنا کر رکھا گیا ہے۔
'ٹائمز' کے مطابق آئر لینڈ اور فرانس کے سفارت کار پسِ پردہ فیلان کی رہائی کی کوششیں کر رہے ہیں۔
'دی آئرش ٹائمز' کی خبر کے مطابق، فیلان 3 اکتوبر کو ایک تحقیقی سفر کے حصے کے طور پر مشہد شہر سے گزر رہے تھے جب انہیں پولیس افسران اور جلائی گئی ایک مسجد کی تصاویر لینے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔
اخبار کے مطابق فیلان کو دو ہفتے تک قیدِ تنہائی میں رکھا گیا اور پھر وکیل آباد جیل منتقل کردیا گیا۔ پھر ایک ماہ حراست میں رکھنے کے بعد ان پر ایرانی حکومت کے خلاف پراپیگنڈے اور اخبار 'گارڈین' کو تصاویر بھیجنے کے الزامات عائد کر دیے گئے۔
برنارڈ فیلان کی بہن میسی فیلان کہتی ہیں،’’ یہ ایک سیاسی معاملہ ہے۔‘‘
انہوں نے 'ٹائمز" سے بات کرتے ہوئے کہاکہ آئر لینڈ کے مطابق انہیں حراست میں رکھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کیونکہ آئر لینڈ کے ساتھ ایرانیوں کے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ انہیں رہا کر دیا جانا چاہئیے۔
محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان نے’ٹائمز‘ کو بتایا کہ محکمہ اس معاملے سے باخبر ہے اور فرانس کے ساتھ قریبی رابطے کے دوران انہیں قونصلر کی مدد فراہم کر رہا ہے۔
ڈبلن میں فرانسیسی اور ایرانی سفارت خانوں نے اس بارے میں تبصرے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔
فیلان کے اہلِ خانہ نے اخبار کو بتایا ہے کہ 84 روز کی حراست کے دوران ان کی فیلان سے صرف دو مرتبہ فون پر بات ہوئی ہے۔
فیلان کے والد کہتے ہیں کہ نومبر میں اسے میری 97 ویں سالگرہ اور کرسمس پر میرے ساتھ ہونا تھا مگر اب مجھے لگتا ہے میں اسے کبھی دیکھ نہیں پاؤں گا۔
( دی او اے فارسی سروس)