میانمار کی ایک ہنتا عدالت نے معروف جمہوریت نواز رہنما آنگ ساں سوچی کے خلاف مقدمے کی سماعت مکمل کرنے کے بعد انہیں مجموعی طور پر 33 سال قید کی سزا سنائی ہے۔
77 سالہ نوبیل انعام یافتہ رہنما سوچی 2021 میں فوج کے ہاتھوں اپنی جمہوری حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد سے مسلسل قید میں ہیں۔ان کے خلاف بدعنوانی سے لے کر غیر قانونی طور پر واکی ٹاکی رکھنے اور کرونا وائرس سے متعلق پابندیوں کی خلاف ورزی تک کے الزامات عائد کیے گئے۔ جن پر انہیں پہلے ہی 26 سال قید کی سزا سنائی جا چکی ہے۔
خبررساں ادارے اے ایف پی نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ جمعے کے روز انہیں جس مقدمے میں سزا سنائی گئی اس کا تعلق ایک ہیلی کاپٹر کی خرید، اس کی سروسز حاصل کرنے اور اس کی دیکھ بھال سے منسلک پانچ الزامات سے تھا۔عدالت کا کہنا ہے کہ اس سے ریاست کو نقصان پہنچا ہے۔
اے ایف پی کے مطابق سوچی کے خلاف اب مزید کوئی مقدمہ باقی نہیں رہا اور ان کے خلاف چلائے جانے والے تمام کیسز کے فیصلے ہو چکے ہیں۔
سوچی گزشتہ 18 ماہ سے قید میں ہیں اور اس دوران ان پر لگائے جانے والے الزامات کی سماعت ہوتی رہی ہے، جس میں انہیں 33 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ انسانی حقوق کے گروپس نے سوچی پر چلائے جانے والے تمام مقدمات کو جعلی قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔
آنگ ساں سوچی کے خلاف عدالتی سماعتوں کے دوران صحافیوں کو مقدمے کی کارروائی دیکھنے کی اجازت نہیں دی گئی اور سوچی کے وکلاء پر بھی یہ پابندی عائد کی گئی کہ وہ اس بارے میں صحافیوں سے بات نہیں کریں گے۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ سوچی تازہ ترین فیصلوں کے خلاف اپیل کریں گی۔
مقدمہ شروع ہونے کے بعد سوچی کو صرف ایک بار عوامی سطح پر دکھایا گیا ہے اور وہ بھی عدالت کے اندر ان کی کھینچی گئی سرکاری تصاویر میں۔
گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے فوجی قبضے کے بعد میانمار کی صورت حال پر اپنی پہلی قرارداد میں فوجی حکمرانوں سے آنگ ساں سوچی کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
میانمار کی فوج نے ملک میں مختصر مدت کے لیے قائم ہونے والی جمہوری حکومت کو برطرف کرنے کے لیے یہ الزامات لگائے تھے کہ نومبر 2020 کے عام انتخابات کے دوران ووٹنگ میں بڑے پیمانے پر دھوکہ دہی اور جعل سازی کی گئی تھی، جب کہ بین الاقوامی مبصرین کا کہنا تھا کہ ووٹنگ بڑی حد تک آزاد اور منصفانہ تھی۔
ان انتخابات میں سوچی کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی پارٹی نے غیر معمولی اکثریت حاصل کی تھی۔
میانمار میں، جسے برما بھی کہا جاتا ہے، زیادہ تر فوج کی حکومت رہی ہے۔ تاہم 2021 میں جب فوج نے حکومت کا تختہ الٹا تو ملک کے اندر اس کی بڑے پیمانے پر مخالفت کی گئی اور بڑےپیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے جنہیں فوج نے طاقت کے بے دریغ استعمال سے دبا دیا۔
فوجی اقتدار کے بعد سے ملک انتشار کا شکار ہے اور کئی علاقوں میں بغاوت کی سی صورت حال ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ فوج نے مخالفین کو کچلنے کے لیے بہت سی آبادیوں کو نذر آتش کیا، فوجی طیاروں سے بمباری اور لوگوں کو ماروائے عدالت قتل کیا گیا۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ میانمار میں فوجی بغاوت کے بعد سے 10 لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔
اس رپورٹ کے لیے معلومات اے ایف پی سے حاصل کی گئی ہیںَ۔