رسائی کے لنکس

اسلام آباد ہائی کورٹ کا وفاقی دارالحکومت میں ہفتے کو بلدیاتی انتخابات کرانے کا حکم


اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے 31 دسمبر کو ہی اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا حکم دیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی کی درخواست پر اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کے معاملے پر محفوظ فیصلہ سنایا۔

عدالت نے الیکشن کمیشن کو حکم دیا کہ چاہے جتنی بھی افرادی قوت لگائیں ہر حال میں شیڈول کے مطابق ہی الیکشن کرائے جائیں۔ عدالت نے وفاقی حکومت کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ الیکشن کمیشن سے ہر ممکن تعاون کرے۔

ااس سے قبل الیکشن کمیشن نے شہر کی 101 یونین کونسلز میں سات سے 10 روز میں الیکشن کرانے کی یقین دہانی کرائی تھی۔

الیکشن کمیشن نے تین روز قبل حکومتی درخواست پر اسلام آباد میں 31 دسمبر کو بلدیاتی انتخابات کا شیڈول منسوخ کر دیا تھا۔

جمعے کو کیس کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس ارباب محمد طاہر نے الیکشن کمیشن کے نمائندے سے استفسار کیا کہ اگر حکومت دوبارہ انتخابات کرانےپر رضامند ہو جاتی ہے تو کیا آپ سات سے 10 روز میں الیکشن کرا سکتے ہیں؟ اس پر الیکشن کمیشن کے ڈائریکٹر جنرل لا نے جواب دیا کہ سات سے 10 دن میں پرانے شیڈول میں الیکشن کرا سکتے ہیں۔

اس پر عدالت نے استفسار کیا کہ سات سے 10 روز کیوں؟ آپ کی تو ساری تیاری مکمل ہے۔ اس پر ڈی جی لا الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ پولنگ کے ہالز کی بکنگ کے دوبارہ انتظامات کرنا پڑیں گے اس لیے وقت درکار ہے۔

خیال رہے کہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں الیکشن کمیشن کے پانچ رُکنی بینچ نے اسلام آباد کی یونین کونسل میں اضافے کے باعث بلدیاتی انتخابات ملتوی کر دیے تھے۔

تحریکِ انصاف نے یہ فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے موٗقف اختیار کیا تھا کہ وفاقی حکومت نے چھ ماہ پہلے یونین کونسلز کی تعداد بڑھا کر 101 کی تھی۔ اسی حکومت نے چھ ماہ بعد یونین کونسلز کی تعداد دوبارہ بڑھا کر 125 کر دی۔

پی ٹی آئی کے وکیل سردار تیمور کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے الیکشن سے محض 11 روز قبل اتنے بڑے اقدام سے متعلق الیکشن کمیشن کو آگاہ ہی نہیں کیا۔

جسٹس ارباب محمد طاہر نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کہا کہ ان تمام سوالوں کا جواب آپ کو دینا ہے۔

اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور دُگل نے عدالت کو بتایا کہ یونین کونسلز کی تعداد بڑھانا یا ترمیم کرنا وفاقی حکومت کی صوابدید ہے۔ اس پر عدالت نے استفسار کیا کہ اس سال کے دوران اس صوابدید کا کتنی بار استعمال ہو چکا ہے؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور دُگل نے کہا کہ اس سے پہلے جون میں یونین کونسلز بڑھائی گئی تھیں۔ اس پر عدالت نے استفسار کیا کہ مردم شماری 2017 کے بعد ہوئی نہیں کس بنیاد پر پتا چلا کہ آبادی بڑھ گئی؟

اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ابھی الیکشن ہو گئے اور کل ترمیمی بل بن گیا تو پھر ایک مسئلہ ہو گا۔

ایک روز کے نوٹس پر الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کے لیے چیلنج

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کل ہی الیکشن کروانے کا حکم تو دے دیا۔ البتہ ماہرین کے مطابق الیکشن کمیشن کے لیے اس صورتِ حال میں ایک ہی دن کے نوٹس پر الیکشن کرانا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔

اسلام آباد کے تمام علاقوں میں الیکشن کروانے کے لیے سامان اور ووٹرلسٹوں، بیلٹ پیپرز کی فراہمی، الیکشن بوتھ قائم کرنے کے علاوہ سیکیورٹی فراہم کرنا بھی ایک مسئلہ ہے۔ اس بارے میں الیکشن کمیشن کا ایک اجلاس بھی طلب کرلیا گیا ہے جس میں اس بارے میں غور کیا جائے گا۔

اس کے ساتھ ساتھ امیدواروں کی تیاریاں بھی ابھی نامکمل ہیں جس میں انہوں نے الیکشن کے لیے اپنے پولنگ ایجنٹس مقرر کرنا ہیں، اس کے ساتھ ساتھ پولنگ اسٹیشن کے باہر کیمپس لگانا اور اسلام آباد پولیس کا سیکیورٹی پلان بھی نامکمل ہیں۔

سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ اس صورت حال میں دو آپشن ہیں کہ اگر انہوں نے اپنی تیاریاں مکمل کررکھی ہیں تو وہ آج رات کو تمام انتظامات مکمل کرکے کل صبح نو یا دس بجے تک پولنگ کرواسکتے ہیں۔

اُن کے بقول دوسرا آپشن یہ ہے کہ اگر ان کی تیاریاں مکمل نہیں ہیں تو وہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو اٹارنی جنرل کے ذریعے درخواست کرسکتے ہیں اور انتخابات ایک ہفتہ تک ملتوی ہو سکتے ہیں۔

کنور دلشاد کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے حکام عام طور پر عدالتوں کے ایسے فیصلوں کے تناظر میں تیار ہوتے ہیں، لیکن اس فیصلے کے ذریعے بہت کم وقت دیا گیا۔

XS
SM
MD
LG