پاکستان کے صوبے بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں 'حق دو تحریک' کے کئی روز سے جاری احتجاجی دھرنے اور کریک ڈاؤن کے بعد حالات بدستور کشیدہ ہیں۔ کریک ڈاؤن کے پانچویں روز شہر میں انٹرنیٹ بند ہے جب کہ دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے۔
پولیس کے مطابق گزشتہ شب 'حق دو تحریک' کے سرگرم کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مار کر 25 کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا۔
ادھر پولیس کی جانب سے مقامی صحافیوں کو ہراساں کرنے کی شکایات بھی سامنے آئی ہیں اور رپورٹرز کو کشیدہ صورتِ حال کی رپورٹنگ میں مشکلات کا سامنا ہے۔
گوادر پریس کلب کے صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شہر میں کشیدگی اور بجلی و انٹرنیٹ کی سہولت منقطع ہونے سے مقامی صحافیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
خیال رہے کہ 'گوادر کو حق دو' تحریک کے شرکا نے کئی روز سے پورٹ روڈ پر دھرنا دے رکھا تھا جس کی قیادت مقامی رہنما مولانا ہدایت الرحمان کر رہے تھے۔
پورٹ روڈ وہ راستہ ہے جو گوادر بندرگاہ کو گوادر شہر سے ملاتا ہے اس کی بندش سے بندرگاہ جانے والے راستے بھی بند ہو گئے تھے۔
مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ گوادر شہر میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے علاوہ ٹرالر مافیا اور چیک پوسٹس کا خاتمہ کیا جائے۔
تحریکِ کے زیرِ اہتمام گزشتہ برس نومبر میں بھی کئی روز تک دھرنا دیا گیا تھا جب کہ خواتین کی بڑی تعداد نے ریلی بھی نکالی تھی۔
اطلاعات کے مطابق 'حق دو تحریک' کے احتجاج کی کوریج کرنے پر مقامی صحافی روزنامہ جسارت کے نمائندے عبیداللہ کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ تاہم پولیس نے کسی صحافی کی گرفتاری کی تصدیق نہیں کی۔
بلوچستان یونین آف جرنلسٹس نے گوادر میں صحافیوں کو آزادانہ طور پر رپورٹنگ کرنے سے روکنے اور ہراساں کرنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
بی یو جے کے جنرل سیکریٹری منظور احمد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یونین کو گوادر سے صحافیوں کے کام میں رکاوٹ کے حوالے سے اطلاعات موصول ہوئی ہیں ، جس پر ہمیں تشویش ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم آزادیٌ صحافت پر یقین رکھتے ہیں اور گوادر کے صحافیوں کو آئین اور قانون کے تحت اپنا کام جاری رکھنے کی اجازت دی جائے اور ان کے کام میں کسی قسم کی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔
گوادر شہر میں بجلی بحال انٹرنیٹ بند
گوادر کے شہری علاقوں میں تین روز تک بجلی بند رہی جو جمعے کی صبح بحال کر دی گئی ہے جب کہ پورے گوادر میں موبائل فون اور انٹرنیٹ کی سہولت تاحال منقطع ہے۔
حق دو تحریک نے الزام عائد کیا ہے کہ شہر میں بجلی بند کرکے رات کو حق دو تحریک کے 25 کارکنوں کو گھروں سے اٹھایا گیا ہے۔
حق دو تحریک کے مطابق گزشتہ پانچ روز کے دوران گوادر میں احتجاج کرنے والے 100 سے زائد کارکنوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
گوادر میں حالات بہتر ہو رہے ہیں: ڈپٹی کمشنر گوادر کا دعویٰ
دوسری جانب ڈپٹی کمشنر گوادر نے دعویٰ کیا ہے کہ گوادر کے باشعور عوام کے تعاون اور سیکیورٹی فورسز کی کاوشوں سے صورتِ حال بہتری کی جانب گامزن ہے۔
ایک بیان میں ڈپٹی کمشنر کا کہنا تھا کہ شہر میں دکانیں اور پیٹرول پمپس کھل گئے ہیں اور سربندر کے علاقے میں بھی معمولاتِ زندگی بحال ہو گئے ہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ گوادر کے عوام نے ترقی مخالف عناصر اور شرپسندوں کا بیانیہ مسترد کر دیا ہے۔
ادھر گوادر پولیس کے ایک آفیسر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شہر میں اب حق دو تحریک کے کارکن کہیں نظر نہیں آرہے ہیں۔
اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ حق دو تحریک کے تمام کارکنوں کو منتشر کر دیا گیا ہے اور اب گوادر سے کراچی اور کوئٹہ جانے والے راستوں پر ٹریفک کو بحال کر دیا گیا ہے۔
ٰحق دو تحریک کے قائد مولانا ہدایت الرحمان کا سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک پر ایک ویڈیو بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ بدقسمتی سے 25 دسمبر کی رات سے گوادر میں فوجی آپریشن کا آغاز ہوا۔
پولیس اور سیکیورٹی اداروں نے مولانا ہدایت الرحمان کے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
گوادر میں مبینہ پرتشدد واقعات پر کوئٹہ میں جماعتِ اسلامی پاکستان نے باچا خان چوک پر احتجاج کیا۔
مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے جماعتِ اسلامی کے رہنما ولی خان شاکر نے کہا کہ گزشتہ پانچ روز سے حکومت گوادر میں طاقت کا استعمال کر رہی ہے اور کئی کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
دوسری جانب انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے گوادر میں احتجاجی مظاہرین کی گرفتاری پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ایمنسٹی کی جانب سے ٹوئٹر پر جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ لوگوں کے پاس اپنے حقوق کے لیے پرامن احتجاج کا حق ہے جب کہ ریاستوں کا فرض ہے کہ وہ ان کی بات سنیں۔
ادھر انسانی حقوق کمیشن بلوچستان شاخ کے چیئرمین حبیب طاہر ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم گوادر میں حق دو تحریک کے احتجاجی مظاہرہ کو کافی دنوں سے دیکھ رہے ہیں۔
اُن کے بقول آئینِ پاکستان نے ہر شہری کو یہ حق دیا ہے کہ وہ اپنے حقوق کے حصول کے لیے پر امن احتجاج کرے۔
حبیب طاہر ایڈووکیٹ نے کہا کہ گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی حق دو تحریک نے اپنا پر امن احتجاج جاری رکھا اور ان کے کچھ جائز مطالبات ہیں اور وہ آئین اور قانون کے دائرے کے اندر ہیں۔
گوادر میں دفعہ 144نافذ
صورتِ حال کے پیشِ نظر بلوچستان حکومت نے ضلع گوادر میں ایک ماہ کے لیے دفعہ 144 نافذ کر دی۔
محکمہ داخلہ بلوچستان کے مطابق گوادر میں ایک ماہ کے لیے دفعہ 144 کا نفاذ کیا گیا ہے، دھرنے کے ہجوم کی فائرنگ سے پولیس کانسٹیبل کی ہلاکت پر وزیراعلیٰ بلوچستان نے سخت کارروائی کا حکم دیا ہے۔
محکمہ داخلہ بلوچستان کا مزید کہنا ہے کہ گوادر میں اسلحہ کی نمائش پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
صوبائی محکمہ داخلہ کے مطابق ایک ماہ تک گوادر میں ریلی، دھرنا اور 5 یا زائد افراد کے جمع ہونے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
حکومتی مؤقف
جمعرات کو کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے صوبائی وزیرِ داخلہ ضیا لانگو اور آئی جی بلوچستان عبدالخالق شیخ نے کہا کہ احتجاج ہر کسی کا حق ہے، لیکن مولانا ہدایت الرحمان کے دھرنے نے گوادر شہر کو بند کر دیا تھا۔
اُن کا کہنا تھا کہ کچھ عرصہ قبل وزرا ، مذاکرات کے لیے گئے، لیکن مولانا ہدایت الرحمان نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔
وزیرِ داخلہ کا مزید کہنا تھا کہ وزیرِ اعلٰی بلوچستان کی ہدایت پر مظاہرین سے مذاکرات کیے گئے اور مظاہرین نے بھی اعتراف کیا کہ اُن کے مطالبات مان لیے گئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بعض مشتعل مظاہرین نے سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔
اُن کا کہنا تھا کہ گوادر میں ایسی جگہ پر دھرنا دیا گیا جہاں چینی شہریوں کی آمدورفت جاری رہتی ہے جو سی پیک منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔