دنیا بھر کی طرح بھارت کی معیشت بھی کرونا وبا کی وجہ سے سست روی کا شکار ہو گئی تھی۔ لیکن کرونا وبا کا زور ٹوٹنے کے بعد ملک میں اقتصادی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا۔ لیکن ماہرین کے مطابق ایک بار پھر بھارت کی اقتصادی شرح نمو میں گراوٹ دیکھی جا رہی ہے۔
بھارتی حکومت نے 31 مارچ کو ختم ہونے والے مالی سال کے لیے جو تخمینہ لگایا ہے اس کے مطابق معاشی نمو سست رہے گی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ اندرون و بیرون ملک بھارتی اشیا کی ڈیمانڈ میں کمی ہے۔
اعداد و شمار کی مرکزی وزارت کی جانب سے جمعے کو جاری کی جانے والی رپورٹ کے مطابق گزشتہ مالی سال میں جی ڈی پی یعنی مجموعی قومی پیداوار 8.7 فی صد رہی جو رواں مالی سال میں کم ہو کر سات فی صد پر آ جائے گی۔
البتہ یہ شرح ریزرو بینک آف انڈیا کے اندازے 6.8 فی صد سے زیادہ ہے۔
حکومت نے اس سے قبل آٹھ سے ساڑھے آٹھ فی صد شرح نمو کی قیاس آرائی کی تھی۔ اس نے مینو فیکچرنگ یا صنعتی ترقی میں ایک اعشاریہ چھ فی صد اور کان کنی کے شعبے میں دو 2.4 فی صد کی پیش گوئی کی ہے۔
ریزرو بینک نے شرح سود میں 225 بیسس پوائنٹ کا اضافہ کرکے 6.25 فی صد کر دیا ہے جو کہ تین برس میں سب سے زیادہ ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ مرکزی بینک اس سال اس میں کچھ اور اضافہ کر سکتا ہے۔
حکومت کے پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق تعمیراتی ترقی میں 9.1 ایک، بجلی کے شعبے میں نو اور زرعی شعبے میں 3.5 فی صد کا اندازہ لگایا گیا ہے۔
حکومت 2024 میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات سے قبل اپنا آخری مکمل بجٹ یکم فروری کو پیش کرے گی۔ وہ مذکورہ تخمینوں کو اقتصادی شرح نمو کی بنیاد کے طور پر دیکھتی ہے۔
اقتصادی امو رکے ماہر اور تھنک ٹینک ’سینٹر فار بجٹ اینڈ گورننس اکاونٹیبلٹی‘ (سی بی جی اے) سے وابستہ جاوید عالم خان کا کہنا ہے کہ حکومت نے جو اعداد و شمار جاری کیے ہیں ان کی بنیاد پر آئندہ کی اقتصادی صورتِ حال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے اقتصادی شرح نمو کو سات فی صد پر کھا ہے لیکن بہت سی ریٹنگ ایجنسیز کا خیال ہے کہ حکومت کا یہ تخمینہ زیادہ ہے۔ شرح نمو چھ فی صد تک ہی رہ سکتی ہے۔ خود ریزرو بینک نے بھی 6.8 فی صد رکھا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ تین سیکٹرز اہم ہوتے ہیں۔ زرعی، مینوفیکچرنگ اور سروس سیکٹر۔ زرعی سیکٹر کی صورتِ حال بہتر اور سروس سیکٹر کی اس سے بھی بہتر ہے۔
نوٹ بندی، کرونا وبا اور یوکرین جنگ بڑی وجوہات
اُن کے بقول مینوفیکچرنگ یا صنعتی سیکٹر کی صورت حال ٹھیک نہیں ہے۔ اس کی شرح نمو کم ہے۔ مینوفیکچرنگ اور مائننگ کو ملا کر اس شعبے میں 1.6 فی صد شروع نمو کا اندازہ لگایا گیا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ افراطِ زر، گھریلو اور بیرونی محاذ پر ڈیمانڈ اور برآمدات میں کمی کی وجہ سے اقتصادی ترقی متاثر ہوئی ہے۔ اگر یہی صورتِ حال رہتی ہے تو آنے والے دنوں میں بھی اقتصادی محاذ پر اچھی خبر سننے کو نہیں ملے گی۔
ان کے خیال میں 2016 کبڑے نوٹ بند کرنے کا فیصلہ، کرونا وبا کی وجہ سے اقتصادی سرگرمیوں پر پابندی، عالمی سست رفتاری اور یوکرین جنگ نے بھارتی معیشت کو کافی متاثر کیا ہے۔ ان کے مطابق اس وقت جو صورتِ حال ہے وہ تشویش ناک ہے، اسے اطمینان بخش نہیں کہا جا سکتا۔
واضح رہے کہ سابق وزیرِ اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے نوٹ بندی کے فیصلے کو غلط قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس سے اقتصادی شرح نمو میں دو فی صد کی گراوٹ آجائے گی۔ دیگر ماہرینِ اقتصادیات نے بھی نوٹ بندی کو معیشت کے لیے نقصان دہ قرار دیا تھا۔
تجارت، سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی وغیرہ کے سلسلے میں کام کرنے والے ادارے ’فاربس‘کے بھارتی چیپٹر سے وابستہ سمر سری واستو کا کہنا ہے کہ یوکرین جنگ کی وجہ سے بھارتی معیشت پر براہ راست اور بالواسطہ دونوں طرح سے اثر پڑا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ سے توانائی اور کھاد کی قیمتیں بڑھ گئیں جس کے سبب بھارت سمیت عالمی سطح پر مہنگائی میں اضافہ ہوا ۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی پالیسی سازوں نے شرح سود میں اضافہ کرکے اسےعالمی شرح کے مطابق کر دیا۔
جاوید عالم کہتے ہیں کہ اس وقت پوری دنیا کی معیشت ایک دوسرے پر منحصر ہے۔ اس لیے یوکرین جنگ سے بھارتی معیشت کا متاثر ہونا فطری ہے۔
اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ کرونا وبا سے متعلق پابندیوں کے خاتمے کے بعد وسط 2022 میں معیشت میں بہتری آئی تھی۔ لیکن یوکرین جنگ کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوا اور اس دباؤ کی وجہ سے ریزرو بینک وبا کے دوران اپنائی گئی معاشی پالیسی کو پلٹنے پر مجبور ہو گیا۔
کیا چین بھی معاشی سست روی کی وجہ ہے؟
بعض دیگر ماہرین کے مطابق کرونا کی وبا نے چین کی معیشت کو بھی متاثر کیا ہے اور چین کے اثرات سے بھارت بھی مستثنی نہیں ہے۔ لیکن جاوید عالم خان کہتے ہیں کہ چین کی معیشت پر جو اثر پڑا ہے وہ عارضی ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ اس کا صنعتی شعبہ اب بھی ٹھیک ٹھاک کام کر رہا ہے۔
لیکن وہ یہ مانتے ہیں کہ بھارتی معیشت کی سست رفتاری کی ایک وجہ چین بھی ہو سکتا ہے کیوں کہ بھارت صنعتی ترقی کے لیے چین سے جو اشیا منگاتا ہے اس کی سپلائی پر اثر پڑا ہے۔
عالمی مالیاتی فنڈ نے بھی بھارت کی جی ڈی پی یعنی مجموعی قومی پیداوار میں گراوٹ کی قیاس آرائی کرکے اسے سال 2022-23 کے لیے 6.8 فی صد پر رکھا ہے جب کہ اس سے قبل اس نے 7.4 فی صد کا تخمینہ لگایا تھا۔
عالمی مالیاتی فنڈ کے ایک عہدے دا رکے مطابق عالمی معیشت میں بھارت کے امکانات روشن ہیں لیکن سروسز کی برآمدات میں اپنی موجودہ طاقت کا فائدہ اٹھانے اور اسے روزگار سے بھرپور مینوفیکچرنگ برآمدات تک بڑھانے کی ضرورت ہے۔
آرگنائزیشن آف اکانومک کوآپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ کے مطابق خیال کیا جاتا ہے کہ بھارت گروپ 20 کے ملکوں میں سعودی عرب کے بعد دوسری تیز رفتار معیشت بنا رہے گا۔ توقع ہے کہ سعودی عرب کی شرح نمو 7.6 فی صد پر رہے گی۔
نئی دہلی کے اخبار ٹائمز آف انڈیا کا کہنا ہے کہ عالمی سست رفتاری کے باوجود بھارت تیز رفتار معیشت کے مقام پر فائز رہے گا۔
تاہم ا س کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارتی معیشت کرونا کے بحران سے نکل رہی ہے لیکن عالمی سست رفتاری، جیو پولیٹیکل صورت حال، اشیائے ضروریہ کی قیمتوں اور شرح سود میں اضافے نے اس کی تیز رفتاری کے لیے خطرہ پیدا کر دیا ہے۔