رسائی کے لنکس

مشن مجنوں: 'پاکستان میں ہر شخص کاجل لگا کر نہیں گھومتا'


پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف بننے والی بالی وڈ فلم 'مشن مجنوں' حال ہی میں نیٹ فلکس کی زینت بنی۔ فلم کو بھارت بھر میں تو پذیرائی مل رہی ہے البتہ پاکستان میں اسےمضحکہ خیز اور کامیڈی تھرلر قرار دیا جا رہا ہے۔

فلم بنانے والوں کے مطابق 'مشن مجنوں' ایک سچی کہانی پر مبنی ہے جس میں اداکار سدھارتھ ملہوترا نے ایک ایسے 'را' ایجنٹ کا کردار ادا کیا ہے جو 70 کی دہائی میں راولپنڈی میں جاسوسی کرتے ہوئے یہ معلوم کرلیتا ہے کہ پاکستان کے شہر کہوٹا میں ایٹم بم بنایا جا رہاہے۔ بعدازاں یہ ایجنٹ راز کے ثبوت کو اپنے ملک پہنچاتا ہے۔

فلم میں جہاں بھارتی سیاست دانوں اندرا گاندھی اورموراجی ڈیسائی کا مثبت کردار دکھایا گیا ہے جب کہ پاکستان کے اُس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا کردار رجیت کپور ، ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا کردار میر سرور نے اور اشوت بھٹ نے جنرل ضیاء الحق کا کردار ادا کیاہے۔

'مشن مجنوں' میں جس طرح پاکستانی شہریوں کی عکاسی کی گئی ہے اس پر کئی صارفین کو اعتراض ہے۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ پاکستان نے جب دنیا سے چھپ کر ایٹم بم بنانے کا فیصلہ کیا تو اس وقت بھارتی جاسوسوں نے اس راز سے پردہ اٹھایا۔ لیکن حقیقت میں پاکستان یا بھارت کی تاریخ میں ایسا کوئی واقعہ درج نہیں ہے۔

اس کے علاوہ فلم میں کئی پرانی بالی وڈ فلموں کی جھلک دکھائی دے رہی ہے، جیسے عامر خان اور کاجول کی فلم 'فنا' سے نابینا مسلمان لڑکی کا جاسوس سے پیار کرنا، 'غلام ' سے ایک لڑکے کا غدار باپ کے بیٹے ہونے کا طعنہ سن کر بڑا ہونا اور ہالی وڈ فلم 'آرگو' سے متاثرہ کلائمکس شامل ہے۔

فلم میں مختلف جگہوں پر لکھی گئی اردو نہ صرف غلط ہے بلکہ چند مقامات پر تو انگریزی کو اردو میں لکھ کر بھی کام چلانےکی کوشش کی گئی ہے۔

بھارتی فلم مبصر روہت جیسوال نے 'مشن مجنوں' کو ماسٹر پیس قرار دیتے ہوئے اسے پانچ میں سے ساڑھے چار اسٹارز دیے ۔

انٹرٹینمنٹ ویب سائٹ بالی وڈ ببل، بالی نیوز سمیت مبصر کادیل اور نشیت شا نے بھی فلم کو چار اسٹارز دیے۔ جب کہ بالی وڈ ہنگامہ، میش ایبل انڈیا اور بالی وڈ بیونڈ کے خیال میں فلم ساڑھے تین اسٹارز کے قابل ہے۔

اس کے علاوہ 'مشن مجنوں'چند ایک بالی وڈ نقاد وں کو زیادہ متاثر نہ کرسکی۔ ان کے خیال میں فلم میں جو کچھ بھی دکھایا گیا وہ جذبہ حب الوطنی سے زیادہ بے وقوفی ہے۔

معروف صحافی انوپما چوپڑا نے 'مشن مجنوں' کو 'لو آئی کیو کوشش 'قرار دے کر اس پر تنقید کی۔

نامور فلمی تجزیہ کار سچیترا تیاگی کے بقول ایک نابینا لڑکی سے جعلی نکاح کرنا اور اس کے بچے کا نام 'امن' تجویز کرنا کسی بھی حال میں حب الوطنی کے زمرے میں نہیں آسکتا۔

صحافی دیپانجانا پال نے تو 'فلم کمپینئن' ویب سائٹ کے لیے لکھتے ہوئے کہا کہ اگر فلم میں ایٹمی پلانٹ ڈھونڈنے کے لیے کموڈ بنانے والوں کے پاس مدد کے لیےجانا پڑے تو اس پر صرف افسوس کیا جاسکتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ فلم میں جس طرح راولپنڈی کو دکھایا گیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مصنفین کی تحقیق نہ ہونے کے برابر تھی۔

دیپانجانا پال نے اداکار کمود مشرا، شارب ہاشمی اور دیگر کی اداکاری کو اوور ایکٹنگ سے تشبیہ دی۔

ان کے بقول نہ تو پاکستان میں ہر شخص کاجل لگا کر گھومتا ہے اور نہ ہی وہاں کی سڑکیں ہر وقت خالی رہتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فلم کا مقصد بھارت کے کی بورڈ واریئرز کو خوش کرنا ہوسکتا ہے کیوں کہ اسے اسی طرح بنایا گیا ہے۔ مرکزی کردار کا سرِعام نیوکلیئر فزکس کی کتاب مانگنے سے لے کر آرمی افسر سے ملاقات کرنے کے طریقے تک سب کچھ ناقابل یقین ہے۔

سینئر صحافی تشار گپتا نے کہا کہ سدھارتھ ملہوترا فلم میں ایک ان پڑھ درزی کا کردار تو ادا کررہے ہیں لیکن جب نیوکلیئر فزکس کی کتاب خرید کر پڑھتے ہیں تو اس پر کسی کو شک نہیں ہوتا جو حیران کن ہے۔

'مشن مجنوں کو ایک مزاحیہ تھرلر کے طور پر لینا چاہیے'

سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے بھی 'مشن مجنوں' پر ملے ےجلے ردِ عمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

عمران صدیق نامی صارف کا کہنا تھا کہ فلم ایک مزاحیہ تھرلر ہے۔

عمر قریشی سمجھتے ہیں کہ موجودہ بھارتی فلم ساز کے خیال میں پاکستان کا وہ ورژن جسےآر ایس ایس کی تنظیم تسلیم کرتی ہے وہی درست ورژن ہے ۔

سلیمان رضا کا کہنا تھا کہ 'مشن مجنوں' میں جس طرح مسلمانوں کی عکاسی کی گئی ہے وہ قابلِ مذمت ہے۔ ان کےخیال میں ٹوپی پہننا، تسبیح کا ہاتھ میں ہونا او ر گردن پر ایک رومال لپیٹنا ہی مسلمان کی پہچان نہیں ہے۔

شائقین نے فلم میں اردو کے غلط استعمال پر بھی بالی وڈ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

کسی نے مسجد کے باہر 'اپنے جوتے یہاں رکھیں' کی جگہ 'کیپ یور شوس حری' لکھنے پر فلم بنانے والوں کا مذاق اڑایا ۔

ایک صارف نے نیٹ فلکس پر اذان کا غلط ترجمہ کرنے والوں کو اسے درست کرنے کامشورہ دیا۔

  • 16x9 Image

    عمیر علوی

    عمیر علوی 1998 سے شوبز اور اسپورٹس صحافت سے وابستہ ہیں۔ پاکستان کے نامور انگریزی اخبارات اور جرائد میں فلم، ٹی وی ڈراموں اور کتابوں پر ان کے تبصرے شائع ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد نام وَر ہالی وڈ، بالی وڈ اور پاکستانی اداکاروں کے انٹرویوز بھی کر چکے ہیں۔ عمیر علوی انڈین اور پاکستانی فلم میوزک کے دل دادہ ہیں اور مختلف موضوعات پر کتابیں جمع کرنا ان کا شوق ہے۔

XS
SM
MD
LG