پاکستان میں انسانی حقوق کے وزیر نے قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے توہینِ مذہب ترمیمی بل پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے وزیرِ اعظم سے اس کا دوبارہ جائزہ لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
یاد رہے کہ 17 جنوری کو صرف 15 اراکین اسمبلی کی موجودگی میں قومی اسمبلی نے فوج داری قوانین (ترمیمی) ایکٹ 2023 کے سیکشن 298-A میں ترمیم کی منظوری دی تھی۔
جماعت اسلامی کے مولانا عبدالاکبر چترالی کی طرف سے پیش کردہ ترمیمی بل میں پیغمبرِ اسلام، اہلِ بیت، ازواج مطہرات، صحابہ کرام اور چاروں خلفائے راشدین سمیت مقدس ہستیوں کے خلاف توہین آمیز کلمات کی سزا تین سال سے بڑھا کر عمر قید کر دی تھی جب کہ کم از کم سزا 10 برس کی گئی ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کا کہنا ہے کہ اس مجوزہ قانون پر تحفظات سامنے آنے کے بعد کونسل کے آئندہ اجلاس میں اس پر غور کیا جائے گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ریاض پیرزادہ کا کہنا تھا کہ توہینِ مذہب کے قانون کے غلط استعمال پر ملک میں پہلے ہی تحفظات پائے جاتے ہیں اور اس نئی قانون سازی پر اقلیتوں سمیت بعض مذہبی جماعتوں کو بھی اعتراض ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ترمیمی بل پارلیمانی کارروائی کے اصولوں کو پورا کیے بغیر منظور کیا گیا ۔
انسانی حقوق تنظیموں اور مذہبی طبقے کے تحفظات
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے توہینِ مذہب کے قانون میں ترمیم پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ توہینِ مذہب کے قوانین میں ترامیم سے معاشرے میں انتشار بڑھے گا۔
تنظیم کی چیئر پرسن حنا جیلانی کے مطابق اگرچہ اِس بِل کا بیان کردہ مقصد فرقہ واریت کو روکنا ہے، تاہم ایچ آر سی پی کا خیال ہے کہ اس سے پاکستان کی مشکلات میں گھری مذہبی اقلیتوں اور اقلیتی فرقوں کو مشکلات کا سامنا ہو گا۔
ایچ آر سی پی کے مطابق اس بِل نے جرم کو بھی ناقابلِ ضمانت بنا دیا ہے جو کہ آرٹیکل نو کے تحت ذاتی آزادی کے آئینی طور پر ضمانت شدہ حق کی واضح خلاف ورزی ہے۔
حنا جیلانی کہتی ہیں کہ پاکستان میں اِس طرح کے قوانین کے غلط استعمال کی تکلیف دہ تاریخ کے پیشِ نظر خدشہ ہے کہ یہ ترامیم زیادہ تر مذہبی اقلیتوں اور فرقوں کے خلاف بطورِ ہتھیار استعمال ہوں گی جس سے جھوٹی ایف آئی آرز اور ہراسانی کو فروغ ملے گا۔
انہوں نے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب سول سوسائٹی ان قوانین کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے ان میں ترامیم کا مطالبہ کر رہی ہے، سزا میں اضافہ کرنا اس کے بالکل برعکس ہوگا۔
تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے رہنما سید شجاعت بخاری کہتے ہیں کہ فقہ جعفریہ میں اس بل کے بارے میں تشویش پائی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ متنازعہ بل مشاورت کے بغیر منظور کیا گیا جو کہ معاشرے میں انتشار، تفریق اور تقسیم کا موجب بنے گا۔
'اسلامی نظریاتی کونسل بل کا جائزہ لے گی'
اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز کا کہنا کونسل نے اصولی طور پر یہ منظوری دی تھی کہ ریاست کو جرائم کو روکنے کا اختیار حاصل ہے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 298 اے فوج داری ترمیمی بل کے حوالے سے سامنے آنے والے تحفظات پر آئندہ اجلاس میں غور کیا جائے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ کونسل کے ایک رکن نے ایک خط کے ذریعے اس بل پر تحفظات کا اظہار کیا ہے تاہم وہ اس بارے میں واضح طور پر کونسل کے اجلاس کے بعد ہی کہہ سکیں گے۔
وزیر انسانی حقوق نے اس بل پر تحفظات کے اظہار کے لیے وزیرِ اعظم کو خط بھی لکھا جس میں کہا گیا کہ ریاست کا فرض ہے کہ وہ مذہبی اقلیتوں کا تحفظ کرے کیوں کہ یہ اسلامی حکم کے ساتھ ساتھ آئینی ذمے داری ہے۔
وائس آف امریکہ کو دستیاب اس خط کی نقل کے مطابق ریاض پیرزادہ نے فوج داری ایکٹ 2023 کے سیکشن 298-A میں ترمیم کے بل کی منظوری کے لیے قومی اسمبلی میں اختیار کیے گئے طریقہ پر تشویش کا اظہار کیا اور آرٹیکل 298 اے کی ترامیم کے بعد مختلف مسالک اور مذہبی اقلیتوں کے تحفظات بارے آگاہ کیا۔
وزیر انسانی حقوق نے لکھا کہ ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ تمام مکاتب فکر اور تمام مذاہب کے شہریوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنائے اور پاکستان کا دستور اور بین الاقوامی اصول بھی اسی کی تاکید کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس بل کی منظوری کے وقت ایوان میں کورم ہی مکمل نہیں تھا اور ایوان میں اس پر سیر حاصل بحث کی گئی نہ ہی قائمہ کمیٹی کو بھجوایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ 298 اے میں کی جانے والی ترامیم پر مسالک اور مذہبی اقلیتوں کو شدید ترین تحفظات ہیں کیوں کہ اس اہم ترین بل کے حوالے سے تمام اسٹیک ہولڈرز خصوصاً تمام مکاتب فکر اور مذہبی اقلیتوں کو اعتماد میں ہی نہیں لیا گیا۔