سارہ خادم ایران کی شطرنج کی چیمپئن ہیں۔ انہوں نے دسمبر میں قزاقستان میں حجاب کے بغیر کھیل میں حصہ لیا۔ وہ ایران کے مظاہرین کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرنا چاہتی تھیں مگر تب سے ان کی اپنی زندگی ڈرامائی طور پر بدل گئی ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے لباس کے سخت اصولوں کے تحت خواتین کے لیے لازم ہے کہ جب وہ گھر سے باہر نکلیں یا بیرونِ ملک اپنے ملک کی نمائندگی کریں تو ان کا سر ڈھکا ہونا چاہئیے۔
25 سالہ سارہ شطرنج میں گرینڈ ماسٹر ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ اس خلاف ورزی کے بعد ان پر سفر کی پابندی عائد کردی جائے گی جیسا کہ پہلے ہو چکا ہے لیکن اس سے بھی بڑھ کر انہیں گرفتاری سے بچنے کے لیے جلا وطنی قبول کرنی پڑی کیونکہ انہوں نے یہ وڈیو پیغام ریکارڈ کروانے سے انکار کر دیا تھا کہ انہیں حجاب نہ پہننے کے لیے مجبور کیا گیا۔
وہ کہتی ہیں،’’ میں نے کہا میں یہ نہیں کر سکتی تو وہ بولے کہ پھر مسٔلہ ہوگا۔‘‘
چنانچہ سارہ قزاقستان سے نکل کر کبھی واپس گھر نہیں گئیں۔ اگر وہ واپس ایران جاتیں تو انہیں گرفتار کر لیا جاتا۔
وہ ہمارے پیچھے آ جاتے
سارہ اب جنوبی سپین میں کسی نامعلوم مقام پر رہتی ہیں۔ انہوں نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے احتجاج کی اس تحریک کے ساتھ وفاداری کا فیصلہ کیا جو ستمبر میں 22 سالہ مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد شروع ہوئی تھی۔
امینی تہران میں لباس کے قوانین کی مبینہ خلاف ورزی پر حراست کے دوران ہلاک ہو گئی تھیں۔
سارہ خادم کہتی ہیں اگر وہ ورلڈ ریپڈ اور بلٹز چیس چیمپئن شپ میں حجاب پہن کر حصہ لیتیں تو یہ ایران میں لوگوں کے ساتھ غداری کے مترادف تھا۔
لیکن وہ کہتی ہیں کہ وہ اپنے 32 سالہ شوہر اردشیر احمدی جو کہ ایرانی نژاد کینیڈین فلم ڈائریکٹر ہیں اور ایک سالہ بیٹے کے ساتھ سپین میں رہتے ہوئے بھی اپنی رہائش کا مقام نہیں بتانا چاہتیں۔
وہ کہتی ہیں،’’ یہ سب سیکیورٹی کی وجوہات کے باعث ہے کیونکہ ایرانی حکومت ہمارے پیچھے آسکتی ہے اور وہ ماضی میں بعض ایرانیوں کے ساتھ ایسا کر چکی ہے۔‘‘
یہ منافقت ہے
سارہ خادم کہتی ہیں کہ حجاب ان کی روزمرہ زندگی میں کبھی شامل نہیں رہا۔ وہ اسے صرف باہر جاتے ہوئے پہنتی تھیں کیونکہ یہ ایران کا قانون ہے۔ ان کے مطابق اگر آپ حجاب میں یقین نہیں رکھتے تو کیمرے کی سامنے آتے ہوئے اسے پہن لینا منافقت ہو گی۔
ملک چھوڑنے پر مجبور ہونے کے باوجود انہیں اپنے فیصلے پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔
وہ کہتی ہیں،’’ اس کے پیچھے میری ذاتی وجوہات تھیں لیکن موقع یقیناً ایسا ہے کہ ایران میں احتجاج کی تحریک چل رہی ہے جسے کچلنے کی حکومتی کوششوں میں کم از کم 500 افراد مارے جا چکے ہیں اور تقریباً 14,000 کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
اکتوبر میں ایرانی کلائمبر ایلناز ریکابی نے حجاب کے بغیر مقابلے میں حصہ لیا تھا لیکن بعد میں اس پر معذرت کرلی تھی کہ حجاب حادثاتی طور پر اتر گیا تھا۔
سارہ خادم اپنا وطن کبھی چھوڑنا نہیں چاہتیں تھیں۔ وہ کہتی ہیں ایران ان کا وطن ہے اور والدین سے دور رہنا ان کے لیے سب سے مشکل فیصلہ تھا۔
سپین میں بھی انہیں اور ان کے شوہر کو جائیداد کے طور پر 5 لاکھ یورو صرف کرنے کے بعد "گولڈن ویزہ" کے تحت سکونت کی اجازت ملی ہے۔
شطرنج کی سٹار جو گزشتہ ماہ سپین کے وزیرِ اعظم پیڈرو سانچیز کے ساتھ شطرنج کھیل چکی ہیں، مانتی ہیں کہ وہ خوش قسمت ہیں اور یہ کہ بہت سے ایرانی ایسے ہیں جو موجودہ حالات میں ویزہ حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
تبدیلی کی امید اب بھی ہے
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ سارہ خادم کو جو دنیا کی 17 ویں بہترین خاتون کا اعزاز حاصل کر چکی ہیں، ایرانی حکومت کے حربوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
2020 میں جب ایران نے غلطی سے یو کرین کا مسافر طیارہ مار گرایا تھا ، جس میں 176 افراد ہلاک ہو گئے تھے تو سارہ کو بیرونِ ملک جانے سے روک دیا گیا تھا۔ ایئرپورٹ پر ہی ان کا پاسپورٹ واپس لے لیا گیا تھا اور انہیں حکام کو یقین دلانا پڑا تھا کہ وہ ترکِ وطن نہیں کر رہیں۔ وہ چھ ماہ تک شطرنج نہیں کھیل سکی تھیں۔
سارہ کو امید ہے کہ وہ ایک بار پھر شطرنج کے مقابلوں میں حصہ لیں گی یا پھر کمنٹیٹر بن جائیں گی۔
وہ ایران کے بارے میں بھی پر امید ہیں اور کہتی ہیں کہ شاید کسی بڑی تبدیلی کے لیے ابھی مزید قربانیوں کی ضرورت ہے لیکن ایک دن آئے گا جب وہ اپنے وطن لوٹ جائیں گی۔
( اس خبر میں مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے)