پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور تجارتی مرکز کراچی کے پولیس آفس پر حملے کی ذمے داری کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) نے قبول کر لی ہے۔ سیکیورٹی ماہرین کہتے ہیں کہ شدت پسند تنظیم اب بڑے شہروں کو نشانہ بنا کر توجہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
جمعے کی شب سوا سات بجے دہشت گردوں کے پولیس آفس پر حملے کے ساڑھے تین گھنٹے بعد آپریشن مکمل کیا گیا جس میں تین دہشت گردوں سمیت سات افراد ہلاک ہو گئے۔ ہلاک ہونے والوں میں دو پولیس اہلکار، ایک رینجرز کا سپاہی اور آفس میں کام کرنے والا سینیٹری ورکر بھی شامل ہے۔
ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی نے ایک بیان میں حملے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ گروپ کے تین اراکین نے سیکیورٹی حصار توڑتے ہوئے پولیس کے محفوظ ترین مقام کراچی پولیس ہیڈکوارٹر پر حملہ کیا۔
شدت پسند تنظیم یوں تو خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔ لیکن کراچی میں ٹی ٹی پی نے یہ کارروائی کئی برسوں کے وقفے کے بعد کی ہے۔
ٹی ٹی پی کی جانب سے کراچی شہر میں اس سے قبل بڑا حملہ 2014 میں کراچی ایئرپورٹ پر کیا گیا تھا جس میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے جوابی کارروائی میں ٹی ٹی پی کے تمام 10 حملہ آوروں سمیت 29 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ستمبر 2014 میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے کراچی ڈاک یارڈ میں پاکستان بحریہ کی تنصیبات پر بھی حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی۔اس حملے میں نیوی کا ایک اہلکار اور تین حملہ آور ہلاک ہوئے تھے ،جب کہ نیوی کے ایک افسر سمیت چھ اہلکار زخمی ہوئے تھے۔
پاکستان میں شدت پسند تنظیموں پرگہری نظر رکھنے والے سیکیورٹی امورکے ماہر بریگیڈیئر (ر) محمد فیاض کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی نے کراچی میں پولیس ہیڈکوارٹر پر حملہ کر کے شہر میں خوف کی فضا قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ کراچی پاکستان کا معاشی حب اور سب سے بڑا شہر ہونے کی وجہ سے ہمیشہ سے ہی ٹی ٹی پی جیسی شدت پسند تنظیموں کے لیے اسٹرٹیجک بنیادوں پر اہم رہا ہے۔
اُن کے بقول "کراچی جیسے صنعتی شہر میں حملہ کرنے سے عالمی سطح پر میڈیا کوریج زیادہ ملتی ہے جس سے معاشی سرگرمیوں پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔"
بریگیڈیئر (ر) محمد فیاض کہتے ہیں کہ "کراچی میں بڑے پیمانے پر کاروبار کی وجہ سے ٹی ٹی پی کے لیے فنڈز اکٹھے کرنے کے لیے یہ شہر اہم رہا ہے اور اس حملے کے بعد شہر میں بھتوں کے مطالبات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔"
کراچی میں ٹی ٹی پی کے حملوں کی تاریخ
یوں تو کراچی میں کالعدم فرقہ وارانہ تنظیموں، پرتشدد سیاسی جماعتوں، جرائم پیشہ گروپس کئی دہاییوں سے فعال ہیں مگر ٹی ٹی پی نے 2009 کے وسط میں یہاں قدم جمائے۔ یہ وہ دور تھا جب خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن جاری تھا اور کئی شدت پسند کارروائیوں سے بچنے کے لیے فرار ہو کر کراچی آ گئے تھے۔
کراچی کے پختون عمائدین کا کہنا ہے کہ کراچی میں طالبان شدت پسندوں کی آمد کے موقع پر شہر میں پہلے ہی سے لسانی بنیادوں پر تشدد اور ہلاکتیں روز کا معمول تھیں۔ اسی کا فائدہ اُٹھا کر ٹی ٹی پی نے بھی اپنے تنظیمی ڈھانچے کو منظم کیا اور 2011 کے وسط تک کراچی کے پشتون علاقوں میں ٹی ٹی پی کا اثر و نفوذ بڑھ گیا تھا۔
کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ کے ایک پختون سیاسی رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ شہر میں فعال طالبان گروہ شروع میں پختون تاجروں سے بھتے کی صورت میں رقوم وصول کرکے قبائلی علاقوں اورافغانستان کے سرحدی علاقوں میں موجود طالبان رہنماؤں کو بھجواتے تھے۔ یہ رقم پھر دہشت گردی کی کارروائیوں میں استعمال ہوتی تھی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی نے پہلے مرحلے میں پختون آبادیوں میں موجود جرائم پیشہ افراد کو ڈرا دھمکا یا لالچ دے کر اپنے ساتھ ملایا اور پھر پشتون تاجروں کے کوائف اور کاروبار کے بارے میں معلومات جمع کر کے طالبان کے مقامی کمانڈرز کو دینے کا سلسلہ شروع کیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کے کمانڈرز یہ معلومات قبائلی علاقہ جات اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں موجود طالبان شدت پسندوں کو فراہم کرتے تھے جو افغانستان کے نمبرز یا شمالی وزیرستان کے کوڈ کے ساتھ لینڈ لائن سے تاجروں کو بھتے کی ادائیگی کے لیے فون کرتے تھے۔
یہ رقم تاجروں کی مالی حیثیت کے مطابق ہوتی تھی اوربھتے کی عدم ادائیگی پر تاجروں کوڈرانے کے لیے اکثر گھر یا دکان کے باہر کریکر بم سے دھماکا کرتے تھے۔
پختون قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) خیبرپختونخوا کے ساتھ ساتھ کراچی میں ٹی ٹی پی کے حملوں کا نشانہ رہی۔
کراچی کے ضلع غربی میں فعال اے این پی کے ایک رہنما کا کہناہے کہ ٹی ٹی پی نے لبرل خیالات رکھنے کی وجہ سے کراچی میں اے این پی کے رہنماؤں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کیا جس میں پارٹی کے لگ بھگ 100 سے زائد رہنما اور کارکن ہلاک ہوئے۔
اسی طرح ٹی ٹی پی نے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے ساتھ ساتھ پولیو رضا کاروں پر بھی حملے کیے۔
پولیس ہلاکتوں کے حوالے سے ضلع غربی کے تھانے مومن آباد، پیرآباد اور منگھو پیر کافی حساس تھے اوران تھانوں پربم حملے بھی کیے گئے۔
ٹی ٹی پی کا کراچی میں منقسم تنظیمی ڈھانچہ
ٹی ٹی پی دراصل خیبرپختونخوا اورسابق قبائلی علاقوں میں فعال مختلف چھوٹے بڑے طالبان گروہوں کا ایک اتحاد ہے جو دسمبر 2007 میں تشکیل پایا۔ البتہ ٹی ٹی پی میں موجود ہرگروہ کی شناخت اس کا وہ علاقہ تھا جہاں سے ان کا تعلق تھا۔
ماہرین کے مطابق کراچی میں طالبان شدت پسند ایک مشترکہ گروہ یعنی ٹی ٹی پی کے طورپرفعال نہیں ہوئے بلکہ اپنی علاقائی شناخت کے ساتھ کراچی میں اپنے ہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے پختونوں کی آبادیوں میں فعال ہوئے۔
"کراچی میں ٹی ٹی پی کے تین گروہ فعال تھے جن میں سوات، جنوبی وزیرستان کا حلقہ محسود اورمہمند کے گروہ شامل تھے اورشہر کے لیے ٹی ٹی پی کی اس وقت کی مرکزی قیادت نے انہیں اپنی الگ قیادت منتخب کرنے کی اجازت دے رکھی تھی۔"
ان کے بقول "بظاہر یہ گروہ آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہتے تھے مگربھتہ، ٹارگٹ کلنگ اور دیگر معاملات میں آزادانہ کام کرتے تھے۔"
اے این پی کے رہنما کا کہنا ہے کہ کراچی میں ٹی ٹی پی کے گروہوں میں سوات شاخ کافی فعال رہی جنہوں نے شہر میں اے این پی کے کارکنوں اورپولیس اہلکاروں پرحملے کیے اوربھتوں کی صورت میں کروڑوں روپے اکھٹے کیے۔
اسی طرح ٹی ٹی پی محسود شاخ کراچی میں دو حصوں میں تقسیم تھی جن میں ایک گروہ حکیم اللہ محسود جب کہ دوسرا گروہ ولی الرحمٰن محسود سے وابستہ تھا۔ کراچی کے امیر کے عہدے پرفائز رہنے والے موجودہ مرکزی امیر مفتی نورولی بھی ولی الرحمٰن گروہ سے وابستہ تھے۔
خیال رہے کہ ٹی ٹی پی محسود کے دونوں گروہوں کے مابین خون ریز لڑائیاں اگست 2013 میں شروع ہوئیں جب حکیم اللہ محسود گروہ کے اہم کمانڈر شیرخان مخالف گروہ کے ہاتھوں منگھوپیرکے علاقے میں مارے گئے۔ یہ جھڑپیں چند ماہ تک جاری رہی۔
ٹی ٹی پی کیسے کمزورہوئی؟
قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران کا کہناہے کہ کراچی میں ستمبر 2013 میں شروع ہونے والے آپریشن میں ٹی ٹی پی کے گروہ خاص ہدف رہے مگران گروہوں کے خلاف حقیقی معنوں میں تیزی دسمبر 2014 میں آرمی پبلک اسکول پشاورمیں ہونے والے حملے کے بعد دیکھنے میں آئی۔
سندھ پولیس کے شعبہ انسداددہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے سینئر افسر راجہ عمر خطاب نے کچھ ماہ قبل ایک انٹرویو میں وائس آف امریکہ کوبتایا تھا کہ 2013 میں شہر میں ٹی ٹی پی کے اہم کمانڈرز کے مارے جانے اور گرفتاریوں کی وجہ سے یہ یہاں بہت کمزور ہو گئی تھی۔
خیال رہے کہ ٹی ٹی پی کے موجودہ مرکزی امیر مفتی نورولی بھی کراچی کے تنظیم کے امیر رہ چکے ہیں اورانہوں نے "انقلاب محسود" نامی اپنی تحریرکردہ کتاب میں کراچی آپریشن میں شدت پسند گروہ کے اہم رہنماؤں کے مارے جانے یا گرفتار کیے جانے کی تصدیق بھی کی ہے۔
راجہ عمر خطاب کا یہ کہنا تھا کہ شمالی وزیرستان اورمتصل قبائلی علاقوں میں جون 2014 میں شروع ہونے والے آپریشن ضربِ عضب سے کراچی آپریشن کوکافی مددملی کیوں کہ طالبان گروہوں کے زیادہ ترہیڈ کوارٹرزشمالی وزیرستان کے میران شاہ اوردیگرعلاقوں میں قائم تھے۔یہاں سے وہ کراچی نیٹ ورک چلاتے تھے۔ آپریشن ضربِ عضب کے سبب ان کے ہیڈکوارٹر اوررابطے کٹ جانے سے کراچی میں فعال گروہ بھی کمزور ہوگئے۔
کیا ٹی ٹی پی دوبارہ فعال ہو رہی ہے؟
جمعے کو ہونے والے کراچی پولیس آفس پرحملے سے ٹی ٹی پی کے شہر میں دوبارہ فعال ہونے کے حوالے سے کئی سواالات جنم لے رہے ہیں۔
بریگیڈیئر(ر) محمد فیاض کہتے ہیں کہ کراچی پولیس آفس پرحملے سے یہ اندازہ ہو رہاہے کہ ٹی ٹی پی نے شہر میں اپنا نیٹ ورک دوبارہ فعال کردیاہے اوراس طرح کے واقعات مستقبل میں بھی رونما ہونے کا خدشہ ہے۔
ان کے بقول، " زیرزمین فعال ہونے اورخفیہ تنظیمی ڈھانچہ رکھنے کی وجہ سے ٹی ٹی پی جیسی تنظیموں کے بارے میں نئی معلومات ملنا کافی مشکل ہوتاہے مگر یہ بات تو طے ہے کہ ٹی ٹی پی کے نئی تنظیم ڈھانچے میں کراچی کوبھی شامل رکھا گیاہے۔"
ان کا کہناہے کہ پولیس ہیڈکوارٹرز پرحملے کے بعد ٹی ٹی پی نے شہر میں مختلف مقامی شدت پسندتنظیموں سے وابستہ افراد کو بھی شدت پسند گروہ میں شامل ہونے کا ایک پیغام دیاہے۔