رسائی کے لنکس

مکران کا شدت پسند گروپ ٹی ٹی پی میں شامل: پاکستان، چین اور ایران کے لیے نیا خطرہ؟


کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے دعویٰ کیا ہے کہ بلوچستان کے مکران ریجن سے ایک مقامی علیحدگی پسند گروپ نے گروپ میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ اس پیش رفت کو ماہرین پاکستان کے ساتھ ساتھ چین اور ایران کے لیے بھی تشویش کا باعث قرار دے رہے ہیں۔

ٹی ٹی پی کی جانب سے یہ دعویٰ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ساحلی شہر گوادر میں 'حق دو تحریک' کے زیرِ اہتمام مطالبات کے حق میں احتجاجی دھرنا دینے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن ہوا ہے۔

سیکیورٹٰی اُمور کے ماہرین, قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سیاسی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اگر ٹی ٹی پی کا یہ دعویٰ درست ہے تو بلوچستان میں امن و امان کی صورتِ حال کے حوالے سے ایک نیا چیلنج ہو گا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پیش رفت گوادر میں چینی مفادات کے لیے خطرہ بننے کے علاوہ ایران کے پاکستان کے ساتھ ملحقہ صوبے سیستان و بلوچستان میں حکومت کے خلاف جاری سنی بلوچ شورش کی مضبوطی کا باعث بن سکتی ہے۔

کالعدم تحریکِ طالبان کے ترجمان محمد خراسانی نے 23 دسمبر کو ایک اعلامیے میں دعویٰ کیا تھا کہ مزار بلوچ کی قیادت میں مکران سے ایک 'مثبت ماضی کی حامل تنظیم' نے گروہ کے امیر مفتی نور ولی محسود کے ہاتھ پر 'ہجرت و جہاد پر بیعت' کر لی ہے جس سے بلوچستان میں ٹی ٹی پی کو تقویت ملے گی۔

کیا طالبان ٹی ٹی پی کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:35 0:00

پنجگور، کیچ اور گوادر اضلاع پرمشتمل مکران ریجن کا شمار بلوچستان کے ان علاقوں میں ہوتا ہے جو پہلے ہی سے کالعدم بلوچ عسکریت پسندوں کی کارروائیوں سے متاثر ہیں۔

ٹی ٹی پی کی جانب سے جاری اعلامیے میں شدت پسند گروہ میں مکران سے شامل ہونے والے گروہ اوران کے رہنما مزار بلوچ کے بارے میں مزید تفصیلات نہیں دی گئیں۔

مزار بلوچ کون ہیں؟

اس حوالے سے وائس آف امریکہ نے سیکیورٹی اُمور کے ماہرین، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران اور عسکریت پسندی کے معاملات سے باخبر صحافیوں سے بات کی ہے۔

کوئٹہ میں تعینات ایک سیکیورٹی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ٹی ٹی پی میں شامل ہونے والے گروہ کے سربراہ مزار بلوچ ایک غیر معروف شخصیت ہیں۔

اُن کے بقول اس کے باوجود مکران ریجن سے کسی گروہ کی ٹی ٹی پی میں شمولیت کا دعویٰ اگر حقیقت پر مبنی ہے تو یہ ریاستِ پاکستان کے لیے پریشان کن ہو سکتا ہے۔

مکران ریجن کے شہر تربت کے سینئر صحافی اسد اللہ بلوچ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مکران میں ٹی ٹی پی یا کسی مذہبی شدت پسند گروپ کے لیے قدم جمانا مشکل ہے۔ لیکن مکران کے اضلاع پنجگور اور کیچ میں طالبان سے نظریاتی طور پر قربت رکھنے والے مذہبی رجحانات کے حامل افراد کی بڑی تعداد موجود ہے۔

ان کا کہناہے کہ کیچ اور گوادر کی نسبت پنجگور ہمیشہ مذہبی رجحانات کے حوالے سے ایسے عناصر کے لیے سازگار رہا ہے۔

حالیہ دنوں میں پاکستان میں ٹی ٹی پی کی کارروائیوں میں شدت آئی ہے۔
حالیہ دنوں میں پاکستان میں ٹی ٹی پی کی کارروائیوں میں شدت آئی ہے۔

ان کے بقول، "مکران میں ہمیشہ قوم. پرست سیاست کی بالادستی رہی ہے اس لیے یہ امکان کم ہے کہ مکران مستقبل قریب میں طالبانائزیشن سے متاثر ہو سکتا ہے۔"

مکران ریجن سے تعلق رکھنے والے نوجوان سیاسی رہنما ظریف رند کا کہناہے کہ ٹی ٹی پی کے مکران ریجن سے ایک گروہ کی شمولیت پرمقامی سیاسی حلقوں میں سنجیدہ گفتگو نہیں ہورہی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ ماضی میں مکران ریجن سے مقامی لوگ افغانستان اورکشمیر میں جہاد کے نام سے لڑنے اورتربیت حاصل کرنے جاتے رہے ہیں۔

بلوچ علاقوں میں اثرونفوذ کی کوشش

رواں سال بلوچستان کے بلوچ علاقوں سے ٹی ٹی پی میں شامل ہونے والا یہ دوسرا گروہ ہے۔

ٹی ٹی پی نے رواں سال جون میں دعویٰ کیا تھاکہ بلوچستان کے ضلع نوشکی سے ملا اسلم بلوچ کی قیادت میں ایک شدت پسند گروہ نے ٹی ٹی پی میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے گروہ کی قیادت سے بیعت لی۔

خیال رہے کہ ٹی ٹی پی روایتی طورپر پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا اوراس میں ضم ہونے والے سابق قبائلی علاقوں کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے پختون علاقوں اورکراچی میں اپنا تنظیمی ڈھانچہ رکھتی ہے۔ اسی وجہ سے شدت پسند تنظیم انہی علاقوں میں دہشت گردی کے زیادہ ترحملے کرتی رہتی ہے۔

کوئٹہ میں تعینات سیکیورٹی اہلکار کا کہنا تھا کہ "ٹی ٹی پی بلوچستان کے بلوچ علاقوں میں ہونے والے سیاسی، سماجی و دیگر معاملات پر گزشتہ کئی ماہ سے بیانات جاری کرتی آ رہی ہے۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ملک کے پختون اکثریتی علاقوں کی طرح بلوچستان کے بلوچ علاقوں میں بھی اپنے اثر و نفوذ کی کوشش کر رہی ہے۔


اُنہوں نے اس حوالے سے مئی میں ڈیرہ بگٹی میں گندے پانی سے مقامی افراد کی اموات، جولائی میں زیارت آپریشن کے نتیجے میں نو بلوچ عسکریت پسندوں کی ہلاکت اور اپریل میں چاغی میں ڈرائیور کی ہلاکت کے واقعات کا حوالہ دیا۔ ان تمام واقعات پر ٹی ٹی پی نے مذمتی بیانات جاری کیے تھے۔

خیال رہے کہ رواں سال اپریل میں پہلی مرتبہ ٹی ٹی پی نے اردو سب ٹائٹلز کے ساتھ بلوچی زبان میں ویڈیو مناظر کے ساتھ ایک جہادی ترانہ بھی جاری کیا تھا۔

ٹی ٹی پی نے اپنی حالیہ تنظیم سازی میں بلوچستان کے پختون علاقوں کو ژوب کے نام سے ولایت یا صوبہ یا ڈویژن قرار دیاہے۔

چینی مفادات کے لیے خطرہ

سیکیورٹی افسران اور ماہرین مکران ریجن کے ایک گروہ کی ٹی ٹی پی میں شمولیت کو پاکستانی اورچینی حکومتوں کے لیے ایک نیا چیلنج قرار دے رہے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ عناصر پہلے ہی سے بلوچستان سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں کئی ارب ڈالرز مالیت کے سی پیک منصوبوں کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ ان منصوبوں کو کالعدم بلوچ تنظیمیں اور سندھی علیحدگی پسند تنظیموں کے ساتھ ساتھ ٹی ٹی پی بھی نشانہ بناتی ہے۔

سی پیک چین کے عالمی سطح پر جاری ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ منصوبے کا حصہ ہے جس کا مقصد چین کے مغربی صوبے سنکیانگ کو زمینی راستے سے گوادر کی بندرگاہ سے منسلک کرنا ہے جس سے چین کو بحیرۂ عرب تک رسائی میں آسانی ہو گی۔

جولائی 2021 میں پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع اپر کوہستان میں چینی انجینئرز کی بس کو دھماکے سے اُڑانے کی ذمے داری بھی چینی حکومت نے ٹی ٹی پی اور ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (ای ٹی آئی ایم) پر ڈالی تھی۔ اس واقعے میں نو چینی شہری اور تین پاکستانی ہلاک ہوئے تھے۔

چینی انجینئرز کی بس میں دھماکے سے نو چینی ورکرز ہلاک ہو گئے تھے۔
چینی انجینئرز کی بس میں دھماکے سے نو چینی ورکرز ہلاک ہو گئے تھے۔

القاعدہ اورٹی ٹی پی سے وابستہ ای ٹی آئی ایم چین کے شمالی سرحدی صوبے سنکیانگ میں سرگرم ہے جہاں ایغور مسلمانوں کی اکثریت ہے جو کہ ناراض ہیں اور ای ٹی آئی ایم ان کی نمائندگی کا دعویٰ کرتی ہے۔

افغان جہاد کے دوران ای ٹی آئی ایم سے وابستہ افراد افغانستان آ گئے تھے اور افغان طالبان نے بھی انہیں پناہ دی تھی۔

افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد ای ٹی آئی ایم کے لوگ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں منتقل ہوئے ۔ای ٹی آئی ایم کے کچھ رہنما پاکستان میں فوجی کارروائیوں میں مارے گئے جن میں گروہ کے دو مرکزی رہنما حسن معصوم اور عبدالحق ترکستانی شامل ہیں۔

’آؤ چین کو پریشان کریں‘ کے عنوان سے 2014 میں ایک ویڈیو پیغام میں القاعدہ کے ایک بااثر نظریاتی اور پاکستانی شہری، مفتی ابوذر البرمی نے کہا تھا کہ امریکہ کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد چین ’اگلا ہدف‘ بن جائے گا۔

انہوں نے تمام انتہا پسند گروہوں، بشمول ٹی ٹی پی کو ہدایات دیں تھیں کہ وہ چینی سفارت خانوں اور کمپنیوں پر حملے کریں اور چینی شہریوں کو اغوا یا ہلاک کریں۔

ایرانی حکومت کے لیے بھی چیلنج

کوئٹہ میں تعینات سیکیورٹی افسر کا کہنا ہے کہ مکران میں ٹی ٹی پی کی فعالیت کا فائدہ ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان میں فعال جیش العدل جیسی سنی بلوچ تنظیموں کو ہو گا جو ایران میں کئی برسوں سے ایرانی حکومت کے خلاف کارروائیوں میں سرگرم ہیں۔

ایران کے صوبہ سیستان وبلوچستان کی سرحدیں پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے مکران ریجن سے ملتی ہے اورمکران، خصوصا پنجگورکے ہزاروں خاندان پاک ایران سرحد کی وجہ سے تقسیم ہیں۔ سرحد کے دونوں اطراف کے باسیوں کے درمیان روزانہ اشیا کا تبادلہ معمول ہے۔

سیستان و بلوچستان میں کئی برسوں سے فعال جیش العدل اورمزاران گمنام بلوچستان نامی بلوچ سنی تنظیمیں یہ الزام لگاتی ہیں کہ تہران میں شیعہ حکومت سیستان و بلوچستان کے بلوچوں کو فرقے اور نسل کی بنیاد پر نشانہ بناتی ہے۔ خیال رہے کہ پاکستان کی طرح ایران کے بلوچوں کی غالب اکثریت سنی ہے۔

ایرانی حکومت پاکستان پر یہ دباؤ ڈالتی رہی ہے کہ وہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان، خصوصاً مکران ریجن میں جیش العدل جیسی تنظیموں کے ٹھکانے ختم کریں۔

خیال رہے کہ جیش العدل کے ایک اہم رہنما اورایرانی حکومت کومطلوب ملا عمر بلوچ اپنے دو بیٹوں کے ہمراہ نومبر 2020 میں بلوچستان کے ضلع کیچ میں پاکستانی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں ایک کارروائی میں ہلاک ہو گئے تھے۔

دوسری جانب پاکستان کا ایرانی حکومت سے یہ گلہ رہا ہے کہ وہ بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کے ایرانی سرزمین پر موجود ٹھکانے ختم نہیں کرتی۔

پنجگور سے ایک سنی مذہبی جماعت کے رہنما نے بتایا کہ مکران ریجن کے بلوچوں کی سرحد پار بلوچوں سے رشتہ داریاں ہیں اوریہی وجہ ہے کہ ایرانی حکومت کے خلاف مزاحمت کرنے والی ایرانی سنی بلوچ تنظیمیں پاکستانی بلوچستان کو اپنے لیے محفوظ سمجھتی ہیں۔

کوئٹہ کے سیکیورٹی اہلکار کا کہنا ہے کہ اب تک جیش العدل کی ٹی ٹی پی کے ساتھ آپریشنل الائنس کی معلومات سامنے نہیں آئیں مگر نظریاتی اورفرقے کے بنیاد پرٹی ٹی پی اورجیش العدل یا مزاران گمنام بلوچستان جیسی تنظیمیں ایک دوسرے کے کافی نزدیک ہیں۔

اُن کے بقول اگر ٹی ٹی پی مکران میں منظم ہو گئی تو بلاشبہ وہ سرحد پار ایرانی حکومت کے خلاف برسرِ پیکار سنی بلوچ تنظیموں کی مدد کرے گی جو تہران حکومت کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہو گا۔

  • 16x9 Image

    ضیاء الرحمٰن خان

    ضیاء الرحمٰن کراچی میں مقیم ایک انویسٹیگیٹو صحافی اور محقق ہیں جو پاکستان کے سیکیورٹی معاملات، سیاست، مذہب اور انسانی حقوق کے موضوعات پر لکھتے ہیں۔  

XS
SM
MD
LG