سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کے معاملے پر از خود نوٹس کیس کی سماعت منگل کی صبح تک ملتوی کردی ہے۔ کیس کی سماعت کرنے والے بینچ نے اسمبلی کی تحلیل اور انتخاب کے اعلان کے اختیار کے حوالے سے کئی آئینی و قانونی سوالات اٹھائے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے ایک موقعے پر ریمارکس دیے کہ الیکشن کی تاریخ اور نگران حکومت کے لیے گورنر کو کسی سمری کی ضرورت نہیں ہے۔
پیر کو اس معاملے کی سماعت سے قبل ہی سپریم کورٹ کے نو رکنی لارجر بینچ میں شامل چار ججز نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا تھا۔ بنچ سے علیحدہ ہونے والے ججز نے اپنے اختلافی نوٹس میں اپنی اپنی رائے کا اظہار بھی کیا ۔
اس کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال خان مندو خیل اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے انتخابات سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کا آغاز کیا۔
چیف جسٹس نے سماعت جاری رکھتے ہوئے ریمارکس دیے کہ منگل کو معاملے کی سماعت شروع کر کے اسے ختم کرنے کی کوشش کریں گے۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آگاہ کیا جائے کہ آیا عدالت یہ مقدمہ سن سکتی ہے۔
اس موقع پر پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ فل کورٹ کے معاملے پر درخواست دائر کی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی درخواست بھی سن کر نمٹائی جائے گی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کل ہر صورت مقدمے کو مکمل کرنا ہے۔
نوٹی فکیشن کون جاری کرے گا؟
سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ اسمبلی تحلیل ہونے کا نوٹی فکیشن کون جاری کرتا ہے؟جس پر اسپیکر پنجاب اسمبلی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ اسمبلی تحلیل کا نوٹی فکیشن الیکشن کمیشن نے جاری کیا۔اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن اسمبلی تحلیل کا نوٹی فکیشن جاری کر سکتا ہے؟
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ نوٹی فکیشن کے مطابق 48 گھنٹے گزرنے کے بعد اسمبلی ازخود تحلیل ہوئی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق نوٹی فکیشن حکومت نے جاری کیا ہے۔ اس پر جسٹس مندوخیل نے کہا کہ نوٹی فکیشن سے پہلے کسی نے تو حکم جاری کیا ہی ہوگا؟
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ گورنر کا کردار پارلیمانی جمہوریت میں صرف پوسٹ آفس کا ہے۔کیا گورنر اپنی صوابدید پر اسمبلی تحلیل کر سکتا ہے؟
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ گورنر کی صوابدید ہے کہ وہ کوئی سمری منظور کرے یا واپس بھیج دے۔اسمبلی تحلیل پر گورنر کا کوئی صوابدیدی اختیار نہیں۔ گورنر اگر سمری منظور نہ کرے تو اسمبلی ازخود تحلیل ہوجاتی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ گورنر کی صوابدید یہ نہیں کہ اسمبلی تحلیل ہوگی یا نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ گورنر سمری واپس بھیجے تو بھی 48 گھنٹے کا وقت جاری رہے گا۔
اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ اگر گورنر سمری واپس بھیجے تو 48گھنٹے کا وقت کہاں سے شروع ہوگا؟
اس پر اسپیکر پنجاب اسمبلی کے وکیل علی ظفر کا کہنا تھا کہ میری نظر میں گورنر اسمبلی تحلیل کی سمری واپس نہیں بھیج سکتا۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ اور نگران حکومت کے لیے گورنر کو کسی سمری کی ضرورت نہیں ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا آرٹیکل 112 تین کے تحت گورنر ازخود اسمبلی تحلیل کرسکتا ہے؟آرٹیکل 112 میں 2 صورتیں ہیں کہ گورنر اسمبلی تحلیل کرنے کی منظوری دیتا ہے یا نہیں؟آرٹیکل 112 کی ذیلی شق ون میں گورنر کی صوابدید ہے کہ تحلیل کریں یا نہیں۔اب بتائیں کہ کیا گورنر کے پاس صوابدید ہے یا ان کا کردار مکینیکل ہے؟
جسٹس جمال مندوخیل نے بھی سوال اٹھایا کہ اگر اسمبلی 48 گھنٹے بعد تحلیل ہوتی ہے تو آئین کے تحت نوٹی فکیشن کون کرتا ہے؟
اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ گورنر کے صوابدیدی اختیارات پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔
اس موقعے پر جسٹس منصور علی شاہ نے تحریکِ انصاف کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا :’’علی صاحب آپ سب کے ہی سوالات پر کہہ رہے ہیں "جی بالکل"۔ کیا آپ سب کے سوالات سے اتفاق کرتے ہیں؟
’’زلزلہ آجائے تو کیا ہوگا؟‘‘
جسٹس مںصور نے کہا کہ اگر الیکشن کے دن ملک میں جنگ ہو یا زلزلہ آجائے تو کیا ہوگا؟ اس پر بیریسٹر علی ظفر نے کہا کہ قانون میں سیلاب اور قدرتی آفات کا ذکر ہے جنگ کا نہیں۔ الیکشن کمیشن مخصوص پولنگ اسٹیشنز پر پولنگ ملتوی کر سکتا ہے۔قانون میں جنگ کا کہیں ذکر نہیں اس کے لیے ایمرجنسی ہی لگائی جاسکتی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سال 1976 میں آئین خاموش تھا کہ الیکشن کی تاریخ دینا کس کی ذمے داری ہے۔ اسمبلی نے ترمیم کرکے صدر اور گورنر کو تاریخ دینے کا اختیار دیا۔ پنجاب کی حد تک صدر نے شاید تاریخ درست دی ہو۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سمری آنے پر اسمبلی تحلیل کا حکم جاری کرنا گورنر کی ذمے داری ہے۔گورنر اپنے حکم میں انتخابات کی تاریخ بھی دے گا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا گورنر تاریخ نہ دے تو الیکشن کمیشن ازخود انتخابات کرا سکتا ہے؟ اس پر تحریکِ اںصاف کے وکیل بیریسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے اسے ہی اختیار ہونا چاہیے۔
اس موقعے پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پارلیمان نے الیکشن ایکٹ میں واضح لکھا ہے کہ صدر بھی تاریخ دے سکتے ہیں۔ پارلیمان کی بصیرت کا کیسے جائزہ لیا جا سکتا ہے؟
جسٹس منصور علی شاہ نے بیریسٹر علی ظفر سے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں گورنر تاریخ نہ دے تو الیکشن کمیشن کو بڑھ کر تاریخ دینا چاہیے؟ اس پر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے۔گورنر اسمبلی تحلیل کرتا ہے تو تاریخ بھی گورنر دے گا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ دوسری صورت ہوگی تو الیکشن کمیشن ایکٹ کرے گا۔
علی ظفر نے کہا کہ گورنر تاریخ نہ دے تو صدر مملکت تاریخ دے گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ گورنر تاریخ دیتے وقت صرف تاریخ دے یا اس پر کوئی غور و فکر کرسکتا ہے ؟ ساتھ ہی جسٹس جمال مندوخیل نے بھی سوال کیا کہ الیکشن کمیشن راضی ہو لیکن وسائل نہ ہوں تو پھر کیا ہوگا ؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ 10 سال الیکشن نہ ہوں۔
الیکشن کی تاریخ کون دے گا؟
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پورے پاکستان میں کرکٹ ہورہی ہے لیکن انتخابات نہیں ہوسکتے۔
اس موقعے پر جسٹس منصور علی شاہ کے ریمارکس پر قہقہے بلند ہوگئے جب انہویں ںے کہا کہ ابھی صرف تاریخ کی بات ہورہی ہے رشتہ نہیں ہوا ، اس کی تاریخ بعد میں ہوگی۔
بیریسٹر علی ظفر نے کہ اکہ الیکشن کمیشن نے گورنرز کو تاریخیں تجویز کر رکھی ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو ہر وقت انتخابات کے لیے تیار رہنا چاہیے۔کوئی بھی اسمبلی کسی بھی وقت تحلیل ہوسکتی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس بنیاد پر انتخابات نہ ہوں کہ پیسے ہی نہیں ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا یہ عجیب نہیں ہے کہ صدر مشاورت سے تاریخ دیتا ہے اور گورنر اپنی مرضی سے؟ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ گورنر کسی سے تو مشاورت کرتا ہی ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اگر گورنر ایک ہفتے میں الیکشن کا اعلان کر دے تو الیکشن کمیشن کیا کرے گا؟ انتخابات کا سارا کام تو الیکشن کمیشن نے کرنا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ انتخابات کے لیے پورا شیڈیول دیا گیا ہے کہ کس مرحلے کے لیے کتنا وقت درکار ہوگا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر گورنر نے تاریخ دینی ہے تو وہ کسی سے مشورہ کرے گا۔گورنر الیکشن کی تاریخ کے لیے الیکشن کمیشن سے مشورہ کرے گا۔
نوے دن
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 90 دن کب ختم ہورہے ہیں؟ اس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ 13 اپریل کو 90 دن ختم ہورہے ہیں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا الیکشن کمیشن 90 دن سے پہلے کا شیڈول بھی دے سکتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا تاریخ دینے کے بعد کسی صورتِ حال میں بھی الیکشن تاریخ تبدیل ہوسکتی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 2008 میں انتخابات کی تاریخ آگے گئی تھی۔ اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ وہ تو قومی سانحہ تھا۔
اٹارنی جنرل شہزاد عطا الہی نے کہا کہ اگر آج کی الیکشن کا اعلان کرینگے تو90 دن کی حد پر عمل نہیں ہوسکتا۔
اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں تاریخ تو دیں پھر ہوتا ہے یانہیں۔
’صدر کی دی گئی تاریخ پر الیکشن ممکن نہیں‘
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن گورنر کی تاریخ کا پابند ہوتا ہے یا تاخیر کرسکتا ہے؟
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آئین میں تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ترکیہ میں زلزلہ کے باوجود انتخابات بروقت ہو رہے ہیں۔ پولنگ کے دن کیا ہوجائے وہ اُس وقت ہی دیکھا جا سکتا ہے۔پہلے ہی خدشات کی بنیاد پر پولنگ ملتوی نہیں ہوسکتی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت آرٹیکل 254 کو بھی مدنظر رکھے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 254 کا اطلاق تب ہوگا جب کوئی کام تاخیر سےکیا گیا ہو۔ پہلے کام کرنے کی نیت تو کریں۔
اٹارنی جنرل شہزاد عطاء الہی نے کہا کہ صدر کی جانب سے دی گئی تاریخ پر الیکشن ممکن نہیں۔ الیکشن کمیشن کو قانون کے مطابق 52 دن درکار ہوتے ہیں۔کسی صورت بھی 25 اپریل سے پہلے انتخابات ممکن نہیں۔
جسٹس مندوخیل نے کہا کہ 2005 میں زلزلہ آیا تو بھی سپریم کورٹ بار کے انتخابات بروقت ہوئے تھے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آئین خاموش ہو تو قانون کے مطابق چلا جاتا ہے۔
آج کی سماعت میں اسپیکر پنجاب اسمبلی کے وکیل علی ظفر نے دلائل مکمل کر لیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ منگل کو سپریم کورٹ بار اور اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے صدور کو بھی سنیں گے۔
سماعت کے دوران صدر مملکت کے پرنسپل سیکریٹری کو بھی طلب کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ آئندہ سماعت میں صدر مملکت کی نمائندگی سلمان اکرم راجہ کریں گے۔
اس کے ساتھ ہی پنجاب اور کے پی میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات ازخود نوٹس کیس کی سماعت کل صبح ساڑھے بجے تک ملتوی کردی گئی۔