پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کے معاملے پر از خود نوٹس کیس کی سماعت کرنے والے نو ججز میں سے چار نے عدالتی فیصلے میں اختلافی نوٹ تحریر کیے ہیں۔
سپریم کورٹ میں پیر کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں نو رکنی بینچ نے از خود نوٹس کیس پر سماعت کرنا تھی۔ تاہم اس معاملے پر سماعت سے قبل 23 فروری کو ہونے والی سماعت کا مختصر فیصلہ جاری ہوا جس میں جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس یحیٰ آفریدی کے اختلافی نوٹس سامنے آئے ہیں۔
اختلافی نوٹ تحریر کرنے والے دو ججز جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحیٰ آفریدی بینچ سے الگ ہو گئے ہیں جب کہ دیگر دو ججز بدستور بینچ کا حصہ ہیں۔
یہاں ججز کے اختلاف نوٹ کی تفصیل شیئر کی جا رہی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ
بینچ میں شامل جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندو خیل نے اپنے اختلافی نوٹ میں آڈیو لیکس کا معاملہ اٹھایا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ "میرے پاس بینچ سے الگ ہونے کا کوئی قانونی جواز نہیں، نوٹ اپنے خدشات کو منظرعام پر لانا چاہتا ہوں۔"
جسٹس منصور علی شاہ نے بینچ میں شامل ایک جج کی آڈیو لیکس کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا کہ جج سے متعلق الزامات کا کسی فورم پر جواب نہیں دیا گیا، بار کونسلز نے جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھی دائر کر رکھا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سپریم کورٹ کے دیگر سینئر ججز کی بینچ پر عدم شمولت پر بھی اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ دو سینئر جج صاحبان کو بینچ میں شامل نہیں کیا گیا، عدلیہ پر عوام کے اعتماد کے لیے ضروری ہے کہ اس کی شفافیت برقرار رہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ
سپریم کورٹ کے جج جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی پنجاب اور خیبرپختونخوا الیکشن کے معاملے پر ازخود نوٹس کیس کے بارے میں اختلافی نوٹ دیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ بادی النظر میں درخواستیں آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے دائرے میں آتی ہیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ اس وقت ماحول چارج ہے، سیاسی جماعتوں کا نکتۂ نظر بھی ہے، عدالت تحمل کا مظاہرہ کرے، عدالت کی خواہش پر ردِ عمل سے بچنے کے لیے ایسا کرنا چاہیے۔سپریم کورٹ کی سماعت کے دوران ریمارکس یا فیصلہ جاری کرنا پارٹیوں کے دعوؤں کے ساتھ تعصب ہو گا، یہ ہائی کورٹ کے قانونی دائرہ اختیار کی بھی توہین ہو گی۔
اپنے نوٹ میں ان کا کہنا ہے کہ فیصلہ جاری کرنے کے لیے عدالتی اختیارات کا استعمال ٹھیک نہیں ہو گا، انتخابات کا معاملہ پشاور اور لاہور ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت ہے اس لیے ازخود کیس میں سپریم کورٹ کی رائے ہائی کورٹس کے فیصلے پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔
جسٹس آفریدی نے مزید لکھا کہ ہمارے لیے آرٹیکل 184 (3) کا استعمال تینوں درخواستوں پر درست نہیں ہو گا۔ میرا سماعت کو سننے کا کوئی فائدہ نہیں، میں بینچ پر اپنے آپ کو برقرار رکھنے کا فیصلہ چیف جسٹس پر چھوڑتا ہوں۔
جسٹس اطہرمن اللہ کا اختلافی نوٹ
جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ چیف جسٹس کا اوپن کورٹ میں دیا گیا آرڈر تحریری حکم نامے سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اسمبلیاں توڑنے کی آئینی وقانونی حیثیت دیکھنا ناگزیرہے۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ صوبائی اسمبلیاں توڑنے کی آئینی اور قانونی حیثیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ کیا صوبائی اسمبلیاں جمہوریت کے آئینی اصولوں کو روند کر توڑی گئیں؟ اسمبلیاں توڑنے کی قانونی حیثیت پر سوالات بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی سے متعلق ہیں۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ ہمارے سامنے آنے والا معاملہ پہلے ہی صوبائی آئینی عدالت کے سامنے موجود ہے۔ اس معاملے کا سپریم کورٹ آنا ابھی قبل از وقت ہے۔کسی اور معاملے کو دیکھنے سے پہلے چیف جسٹس نے مجھ سے اس معاملے پر سوالات مانگے ہیں۔
اختلافی نوٹ میں جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ کیا صوبائی اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس دینا وزیراعلیٰ کا حتمی اختیار ہے جس کی آئینی وجوہات کو دیکھنا ضروری نہیں؟ کیا وزیراعلیٰ اپنی آزادانہ رائے پر اسمبلی توڑ سکتا ہے یا کسی کی رائے پر؟ کیا کسی بنیاد پر وزیراعلیٰ کی ایڈوائس کو آئینی طور پر مسترد کیا جا سکتا ہے اور اسمبلی بحال کی جاسکتی ہے؟
جسٹس جمال خان مندوخیل کا اختلافی نوٹ
جسٹس جمال خان مندوخیل نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ گزشتہ رات گئے(22 فروری کی رات) میں نے ایک فائل وصول کی کہ معزز چیف جسٹس نے ایک از خود نوٹس لیا ہے اور یہ نوٹس جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی نقوی کے ایک حکم کی بنیاد پر لیا گیا۔
جسٹس جمال نے لکھا کہ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی نقوی کا حکم فیڈرل سروس ٹریبونل کے خلاف غلام محمود ڈوگر کی اپیل پر دیا گیا تھا جن کی اپیل اپنی ٹرانسفر کے حوالے سے تھی۔
جسٹس جمال نے کہا ہے کہ "غلام محمود ڈوگر کی اپیل زیرِ التواء تھی جب 16 فروری کو بینچ نے چیف الیکشن کمشنر کو بلایا جو درخواست میں فریق نہیں، چیف الیکشن کمشنر سے پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے انتخابات کرانے کے حوالے سے پوچھا گیا۔ چیف الیکشن کمشنر کے جواب سے قطع نظر، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی نقوی نے معاملہ چیف جسٹس پاکستان کو بھیجا، معاملے پر ان کا از خود نوٹس لینا مناسب سمجھا، الیکشن سے متعلق معاملے کا ملازمت کے معاملے سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔"
ان کا کہنا تھا کہ تین آڈیو ریکارڈنگز منظرِ عام پر آئیں، ایک آڈیو میں غلام محمود ڈوگر کے وکیل عابد ایس زبیری مبینہ طور پر سابق وزیرِ اعلیٰ سے بات کر رہے ہیں، عابد زبیری مبینہ طور پر سابق وزیرِ اعلیٰ سے غلام محمود ڈوگر کے زیرِ التواء کیس کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔میرے خیال میں یہ معاملہ نہایت سنجیدہ تھا، اس کے علاوہ معزز جج صاحبان یہ کہہ کر اپنی رائےکا اظہار کر چکے ہیں کہ انتخابات 90 دن کے اندر کرانا ضروری ہیں اور یہ کہ آئین کی خلاف ورزی کا بڑا خطرہ تھا، معزز چیف جسٹس نے نہایت احترام کے ساتھ ان 2 جج صاحبان کے بیان کردہ نکات میں اضافہ کیا، معزز چیف جسٹس نے اپنی رائے کا اظہار بھی کیا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسی قطعی رائے نے اس معاملے کا فیصلہ کیا ہے اور آئین کے آرٹیکل 104-اے کو مدِ نظر رکھے بغیر ایسا کیا ہے، ان حالات میں از خود نوٹس کے لیے معاملے کو چیف جسٹس کے پاس بھیجنا مناسب نہیں تھا، از خود نوٹس مناسب نہیں ہے۔