پاکستان میں صحافیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے ٹی وی چینلز کو ریگولیٹ کرنے والے ادارے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا)کی پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اورسابق وزیرِ اعظم عمران خان کی تقاریرنشر کرنے پر مکمل پابندی اور نجی ٹی وی چینل اے آر وائی کی نشریات معطل کرنے کو بنیادی آئینی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ایسی پابندیاں کبھی بھی فائدہ مند نہیں ہوتیں۔ قومی سلامتی کے معاملے پر سیاسی رہنماؤں اور میڈیا کے اداروں کو حدود کا تعین کر لینا چاہیے۔
اتوار کو پیمرا نے اعلامیہ جاری کیا تھا کہ ٹی وی چینلز عمران خان ریکارڈ شدہ یا براہِ راست کوئی بیان، گفتگو یا خطاب نشر نہیں کر سکیں گے۔ پیمرا کے مطابق عمران خان اداروں پر حملے کر رہے ہیں اس لیے پابندی لگائی گئی۔ اس پابندی کے بعد نجی نشریاتی ادارے ’اے آر وائی نیوز‘ کی طرف سے عمران خان کی تقریر ہیڈ لائنز میں دکھانے کے الزام پرلائسنس معطل کر دیا گیا۔
پیمرا سے لائسنس معطل ہونے کے بعد مختلف کیبل نیٹ ورکس پر ’اے آر وائی نیوز‘ کی نشریات بند کر دی گئی ہیں۔
ایسوسی ایشن آف الیکٹرانک میڈیا ایڈیٹرز اینڈ نیوز ڈائریکٹرز (ایمنڈا) نے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان کا آئین ہر شخص کو قانونی ضابطوں کے مطابق تقریر اور تحریر کی اجازت دیتا ہے۔کسی سیاسی رہنما کی تقریر یا گفتگو نشر کرنے سے روکنا غیر قانونی عمل ہے۔
پاکستان میں یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ کسی سیاسی رہنما کے بیانات نشر کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہو۔ ماضی میں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی طرف سے پاکستان کی فوج کے اس وقت کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور ملک کی طاقت ور ترین خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی)لیفٹننٹ جنرل فیض حمید پر ایک تقریر کے دوران الزامات عائد کیے تھے۔
اس وقت پیمرا نے ایسے ہی احکامات جاری کیے تھے جن میں نواز شریف کی تقاریر نشر کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
ان کے علاوہ متحدہ قومی موومنٹ( ایم کیو ایم) کے بانی الطاف حسین کے خطاب نشر کرنے پر 2016 میں ریاست مخالف تقاریر پر عدالتی احکامات کے تناظر میں پابندی لگائی گئی تھی۔ بعد ازاں ایم کیو ایم نے اپنے بانی کو پارٹی سے نکال دیا تھا۔ الطاف حسین پر گزشتہ کئی برس سے پابندی برقرار ہے۔
اے آر وائی پر پابندی
نجی نشریاتی ادارے ’اے آر وائی‘ پر پابندی کے معاملے پر سوشل میڈیا پر بھی شدید ردِ عمل دیکھنے میں آ رہا ہے جب کہ اس حکومت کے اس اقدام پر تنقید کی جا رہی ہے۔
اےآر وائی کی بندش پر اسی چینل کے سابق اینکر اور صحافی صابر شاکر کا کہنا تھا کہ بدحواسی کا عالم ہے۔ ماضی میں بھی ڈکٹیٹرز ایسا کرتے رہے ہیں۔
اے آر وائی نیوز کے نائب صدر عماد یوسف نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا کہ تقریباً تمام چینلز نے عمران خان کی خبر نشر کی لیکن پیمرا نے نشریات معطل کرنے کے لیے صرف اے آر وائی نیوز کا انتخاب کیا۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) نے بھی اے آر وائی نیوز کا لائسنس معطل کرنے کی شدید مذمت کی ہے۔
کیا ایسی پابندی کا فائدہ ہوتا ہے؟
بعض مبصرین سیاسی رہنماؤں پر ایسی پابندیوں کو ان کے لیے سیاسی طور پر فائدہ مند قرار دیتے ہیں۔
سینئر صحافی حامد میر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سیاستدانوں پر پابندی لگنے سے ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا ہےالبتہ بعد ازاں سیاست دان مقبولیت کا فائدہ اٹھا کر ڈیل کرلیتے ہیں۔
ماضی کا حوالے دیتے ہوئے حامد میر نے کہا کہ نواز شریف نے ایک وقت پر آواز اٹھائی تھی اور مقبول رہنما بن گئے تھے البتہ بعد میں انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کر لی تھی۔ اب عمران خان بھی یہی چاہ رہے ہیں۔
حامد میر نے کہا کہ پاکستان میں حقیقی جمہوریت نہیں ہے۔ اس لیے پابندی کے نتیجے میں ملنے والی مقبولیت کا عام طور پر سیاست دان یا کسی صحافی کو فائدہ نہیں ہوتا۔ مقبول سیاست دان یا تو پھانسی چڑھ جاتا ہے، قتل ہو جاتا ہے یا پھر اس کو نا اہل قرار دے دیا جاتا ہے۔
انہوں نے اپنے پروگرام پر لگنے والی پابندی کا حوالہ دیتے ہوئے کہ مجھ پر پابندی لگی تو نو ماہ کی اس پابندی کے دوران میری 20 سالہ مقبولیت کا مجھے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
حامد میر کہتے ہیں کہ نواز شریف پر جب پابندی لگی تو صحافیوں نے اس پر آواز اٹھائی، تو پی ٹی آئی کی طرف سے انہیں غدار صحافی قرار دیا گیا۔ اب جب عمران خان پر پابندی کے خلاف صحافی آواز اٹھا رہے ہیں تو پھر صحافی تنقید کا نشانہ ہیں۔
’حکومت پریشان نظر آ رہی ہے‘
انسانی حقوق پر کی غیر سرکاری تنظیم ’ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان‘ (ایچ آر سی پی) کی زہرہ یوسف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ صورتِ حال میں حکومت پریشان نظر آ رہی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسی پابندیاں کسی طور فائدہ مند ثابت نہیں ہوتیں بلکہ اس سے صرف حکومت کی بوکھلاہٹ ظاہر ہوتی ہے۔
زہرہ یوسف کے مطابق کسی پر پابندی لگانا آئین میں دیے گئے حقوق کی واضح خلاف ورزی ہے۔ کسی بھی شخص کو اپنی رائے کے اظہار کی آزادی ہے۔
ان کے بقول حکومت ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھتی۔ عمران خان کے دور میں نواز شریف پر پابندی لگی۔ زرداری کے انٹرویوز روک دیے گئے۔ الطاف حسین کی تقاریر بند کردی گئیں۔ یہ سراسر انصاف اور آئین کے تقاضوں کے منافی ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ نقصان ہی ہوگا۔
حالیہ پابندیوں کے حوالے سے زہرہ یوسف نے کہا کہ اس وقت پیمرا حکومت کے احکامات پر ایسا کر رہی ہے کہ وہ مختلف چینلز کو بند کر رہی ہے لیکن اس سے صرف یہ بات ظاہر ہو رہی ہے کہ وہ ماضی کی غلطیوں سے سیکھنے کے بجائے آج بھی انہی طریقوں پر عمل کر رہے ہیں جن کی وجہ سے ماضی میں آزادیٴ اظہارِ رائے پر پابندیاں لگیں۔
انہوں نے ایچ آر سی پی کی جانب سے مطالبہ کیا کہ کسی سیاست دان یا کسی بھی میڈیا ہاؤس پر عائد تمام پابندیوں کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔
آزادیٴ اظہارِ رائے اور قومی سلامتی
سابق صدر ممنون حسین کے پریس سیکریٹری اور سینئر صحافی فاروق عادل نے کہتے ہیں کہ آزادیٴ اظہار پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے لیکن آزادیٴ اظہارِ رائے کوئی ایسی چیز نہیں جس کا تعلق کسی اردگرد کی چیز سے نہ ہو۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے فاروق عادل کا کہنا تھا کہ آزادیٴ اظہار ذمہ داری کے ساتھ ہوتی ہے۔ آزادیٴ اظہار قومی سلامتی کے ساتھ ہوتی ہے، جو ایک بدنام اصطلاح ہے۔
انہوں نے کہا کہ آزادیٴ اظہار سے اگر آئی ایم ایف سے معاہدہ خطرے میں پڑ جائے تو یہ آزادیٴ اظہار نہیں ہے بلکہ جرم ہے۔
ان کے مطابق کسی بھی سیاست دان کی ذمہ داری ہے کہ وہ سیاسی مقاصد کے لیے ریاست کو نقصان نہ پہنچائے۔ اگر ایسا کیا جائے گا تو پابندی لگانا درست تصور ہوگا۔ ریاست کی قیمت پر کوئی آزادی نہیں ہے۔
پابندیوں میں اضافے کا اندیشہ
سینئر صحافی حامد میر نے موجودہ صورتِ حال میں آئندہ دنوں کے حوالے سے کہا کہ کچھ عرصے میں یہ پابندیاں مزید بڑھنے جا رہی ہیں اور نجی ٹی وی ’اے آر وائی‘ کے بعد باقی چینلز بھی اس کی زد میں آئیں گے۔
انہوں نے کہا کہ صرف ٹی وی چینلز نہیں بلکہ مجھ سمیت کئی اینکرز بھی پابندی کا شکار ہوں گے اور نہ صرف پابندیاں لگیں گی بلکہ کئی گرفتار بھی ہوں گے۔
حامد میر کا مزید کہنا تھا کہ یہ سب کچھ دیوار پر لکھا جا چکا ہے کیوں کہ پارلیمنٹ میں قانون سازی ہو رہی ہے کہ پاکستان کی فوج اور عدلیہ کے خلاف بات کرنے والوں کو بغیر کسی وارنٹ کے گرفتار کیا جاسکے گا، جس کی سزا تین سال ہے۔
آزادیٴ اظہارِ رائے کی حدود کا تعین کون کرے گا؟
فاروق عادل کہتے ہیں کہ ریاست کو نقصان پہنچانے کی حدود کا تعین ہر سیاست دان یا میڈیا ہاؤس کی طرف سے کی جانے والی بات کے نتائج سے اندازہ لگا کر کیا جائے گا۔آزادیٴ اظہار سے جو اثرات معاشرے میں ہوں گے، وہی اس کی حدود کا تعین کر یں گے۔
ان کے مطابق مثال کے طور پر عمران خان کے دور میں ان کے وزیر ہوا بازی نے پی آئی اے کے پائلٹس کے لائسنس جعلی ہونے کا غلط بیان دیا۔ یہ آزادیٴ اظہار نہیں تھا بلکہ اس ایک تقریر نے پوری دنیا میں پاکستان کی قومی ایئرلائن کو بند کروا دیا، یہ ایک جرم تھا۔
سابق وزیرِ اعظم کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمران خان اپنی حکومت چھن جانے کے بعد جو بیانات دے رہے ہیں۔ ان بیانات کی وجہ سے ملک میں سیاسی عدم استحکام ہے اور ملک کی اقتصادی حالت خراب ہورہی ہے۔
فاروق عادل کا کہنا تھا کہ عمران خان کے بغیر کسی ثبوت کے ریاستی اداروں پر الزامات سے اداروں کا امیج خراب ہو رہا ہے۔ آزادیٴ اظہار ذمہ داری کے ساتھ ہوتی ہے جس میں ریاست سب سے زیادہ اہم ہے۔