امریکی وزیرِ خارجہ انٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ امریکہ اور وسط ایشیائی ممالک کے درمیان طویل عرصے کے تعلقات ہیں جو ان ممالک کی آزادی کے بعد سے قائم ہیں اور ان تعلقات کی بنیاد ان ممالک کی آزادی، خود مختاری اور ان کی باہمی علاقائی یک جہتی کے لیے امریکہ کی پر زور حمایت کے ساتھ رکھی گئی۔
بلنکن نے ان خیالات کا اظہار بدھ کے روز تاشقند ازبکستان کے ایک ویب پورٹل کن ڈاٹ اوز(kun.uz) کے صحافی دونیئر تخسینوف کے ساتھ ایک انٹرویو میں کیا۔
انہوں نے افغانستان میں سیکیورٹی کے مسائل اور طالبان کی موجودہ حکومت کے ساتھ کسی رابطے کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ طالبان کے ساتھ امریکہ کا رابطہ ہے اور یہ رابطہ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد سے ہے۔ اور دیگر ممالک بھی ان سے رابطے میں رہتے ہیں۔
تاہم انہوں نے کہا،’’افغانستان پر قبضے کے وقت دیگر باتوں کے علاوہ طالبان نے اس بارے میں کچھ وعدے کیے تھے کہ وہ کس طرح ملک پر حکومت کریں گے اور دوسرے ممالک کے ساتھ کس طرح رابطے رکھیں گے۔
بلنکن نے کہا کہ طالبان کی حکومت کے آغاز ہی میں دنیا بھر کے ممالک نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک قرارداد میں واضح کیا کہ وہ طالبان سے کیا توقعات رکھتے ہیں، جن میں انسانی حقوق، خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کا تحفظ، ایک جامع طرز حکمرانی جس میں صرف طالبان نہ ہوں، لوگوں کے لیے نقل و حرکت کی آزادی اور انہیں افغانستان سے اپنی مرضی کے مطابق جانے اور آنے کی اجازت اور دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف کارروائی شامل ہیں، چاہے وہ جہاں بھی ہو اور جس کی جڑیں افغانستان میں ہوں۔
لیکن امریکی وزیرِ خارجہ نے کہا ،’’بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ اس کے بعد سے ہم نے جو دیکھا وہ یہ کہ طالبان اس سے بالکل مخالف سمت میں جا رہے ہیں۔کوئی وعدہ پورا نہیں کر رہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ امریکہ افغانستان کو انسانی ہمدردی کی امداد فراہم کرنے والوں میں پہلے نمبر پر رہا ہے کیونکہ ہم نہیں چاہتے کہ لوگ تکلیف اٹھائیں۔ جب کہ وہ تکلیف میں ہیں۔
انہوں نے کہا،’’ہم نے پوری کوشش کی ہے کہ لوگوں کو خوراک، دوائیں اور بنیادی ضرورت کی اشیا مہیا ہوں۔لیکن طالبان نے انسانی ضرورت کی امداد کی ترسیل میں خواتین کی شمولیت پر پابندی عائد کر کے اسے مزید مشکل بنا دیا ہے اور ان تمام امور میں حالات بد تر ہی ہوئے ہیں، بہتر نہیں ہوئے۔‘‘
انٹنی بلنکن نے واضح کیا کہ اگر طالبان امریکہ سمیت دیگر ملکوں کے ساتھ معمول کے تعلقات کی توقع رکھتے ہیں تو انہیں جان لینا چاہئیے کہ انہیں کرنا کیا ہے۔ انہیں اچھی طرح علم ہے کہ دنیا ان سے کیا چاہتی ہے۔
افغانستان کے بارے میں ازبکستان کے موقف سے متعلق ایک سوال کے جواب میں امریکی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ ’’ ہم ازبکستان جیسے ممالک کی کوششوں کا خیر مقدم کرتے ہیں اور ان کی تعریف کرتے ہیں کہ انہوں نے طالبان کے ساتھ رابطے میں ان پر واضح کیا کہ دیگر ممالک کے ساتھ معمول کے تعلقات کے لیے ان سے کیا توقعات ہیں۔‘‘
(وی او اے)