چینی ساختہ ٹیکنالوجی اور ٹک ٹاک جیسے چینی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے بارے میں ایک اوراعلیٰ امریکی انٹیلی جنس اہل کاربھی نےتشویش کا اظہار کیا ہے۔ یوایس سائبر کمانڈ اور نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے سربراہ جنرل پال ناکاسونے نے بیجنگ کو ایک بہت بڑا دشمن قرار دیتے ہوئے منگل کو قانون سازوں کو بتایا کہ چین کے سائبر اسپیس میں تیزی سے پھیلنے سے ہوشیار رہنے کی متعدد وجوہات ہیں۔
ناکاسونے نے سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کی سماعت کے دوران کہا، "ٹک ٹاک متعدد مختلف وجوہات کی بنا پر تشویش کا باعث ہے۔ ایک تووہ ڈیٹا جوان کے پاس ہے۔ دوسرا الگوردھم جس پر ان کا کنٹرول ہے۔ تیسرا یہ ایک وسیع المصرف پلیٹ فارم ہے جو دو اعتبار سے ہمارے لیے خطرناک ہے۔ ایک طرف چین اسے ممکنہ اثر و رسوخ کی کارروائیوں کو ختم کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے اور دوسری طرف وہ پیغامات کی ترسیل کو بند کرنے کا راستہ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
پچھلے مہینے امریکی حکومت نے سرکاری آلات سے ٹک ٹاک سوشل میڈیا ایپ جسے 100 ملین سے زیادہ امریکی استعمال کرتے ہیں، پر پابندی لگانے کے منصوبوں کوآگے بڑھایا ۔ کچھ امریکی قانون سازوں نے امریکی صدرجو بائیڈن سے ملک بھر میں اس سوشل میڈیا ایپ کے استعمال پرپابندی لگانے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
تاہم بعض حلقے بائیڈن کی جانب سے ملک گیرپابندی عائد کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ ان کے خیال میں ٹک ٹاک ایک بڑے مسئلے کا صرف ایک چھوٹا حصہ ہے۔
ڈیموکریٹک سینیٹر مارک وارنر نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’’جس خطرے کے بارے میں ہرکوئی بات کر رہا ہے وہ ٹک ٹاک ہے، اور یہ کس طرح چینی کمیونسٹ پارٹی کی نگرانی کی اہلیت کوبڑھا سکتا ہے یا امریکہ کوبد نام کرنے کی مہم میں سہولت فراہم کر سکتا ہے‘‘۔
انہوں نے کہا کہ ’’ہمیں ایک جامع حکمت عملی پر مبنی نقطہ نظر کی ضرورت ہے جو ممکنہ طور پرخطرناک ٹیکنالوجی کے ذرائع کو امریکہ میں قدم جمانے سے پہلے ہی ان سے نمٹ سکے‘‘۔
وارنراوردیگر کی طرف سے پیش کردہ پابندی کےایکٹ میں اصولی ضابطوں پرمبنی عملی طریقہ کار کی تجویزدی گئی ہے،اس ایکٹ کا مسودہ امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی کی فراہم کردہ اطلاعات اورمحکمہ تجارت کی طرف سے ہدایت کی روشنی میں تیار کیا گیا ہے، جس کا مقصد غیر ملکی تکنیکی خطرات کی شناخت اور ان سے نمٹنا ہے۔
دوسری طرف ٹک ٹاک کی مالک کمپنی ByteDance نے ان خدشات کو مسترد کر دیا ہے کہ وہ صارف کے ڈیٹا کو ’’سیاسی تھیٹر‘‘ کے طور پر غلط طریقے سے استعمال کرے گی۔
اس قسم کی وضاحتوں اور تردید کے باوجود امریکہ میں چینی کمپنیوں اور چینی ٹیکنالوجی کے بارے میں خدشات بڑھتے رہتے ہیں۔
دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ اس واقعہ کے بعد اور بھی بڑھا جب امریکہ نے گزشتہ ماہ ایک چینی جاسوس غبارے کو مار گرایا ۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بائیڈن آنے والے دنوں میں ایک انتظامی حکم نامہ جاری کریں گے جو امریکی کمپنیوں کی چین میں سرمایہ کاری کرنے کی اہلیت کے بارے میں قوانین کو سخت کرے گا۔
چین کے وزیر خارجہ چن گینگ نے منگل کوامریکہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے بیجنگ میں صحافیوں کو بتایا کہ واشنگٹن کی چین پالیسی ’’مکمل طور پر دانش مندی سے ہٹ گئی ہے‘‘۔
بہرحال کانگریس کی حالیہ سماعت میں یوایس سائبرکمانڈ اورنیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے سربراہ جنرل پال ناکاسونے نے قانون سازوں کو بتایا کہ سیاست دانوں اورکاروباری اداروں کو یکساں طور پر ہوشیاررہنا ہوگا۔ انہیں چاہیے کہ وہ اس بارے میں محتاط رہیں کہ وہ چینی ساختہ پلیٹ فارمزاور ٹیکنالوجی کو کس طرح استعمال کرتے ہیں۔
سائبرکام کمانڈر نے کہا، ’’میں اس بات کو یقینی بناؤں گا کہ وہ شعبے جو ہمارے آپریشنز کے لیے سب سے زیادہ حسّاس ہیں، اچھی طرح سے سینسر کیے گئے ہوں، اورمیں اس امرکو یقینی بناوں گا کہ صرف مذکورہ چیز وہاں استعمال کی جا رہی ہے۔ کیوںکہ میں سمجھتا ہوں کہ وہ معلومات کہاں تک جا سکتی ہیں‘‘۔
ناکاسونے نے کہا ، ’’میں ہراس چیز پرسختی سے نظررکھوں گا جوایک مخالف ملک سے آئے گی‘‘ ۔ اس کے ساتھ انہوں نےاس حقیقت کوتسلیم کیا کہ چینی مصنوعات پرمکمل پابندی کے ساتھ آگے بڑھنا ’’بہت مشکل‘‘ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ’’ہم جوکچھ کرتے ہیں اس کا زیادہ ترحصہ بین الاقوامی تجارت پرمبنی ہے اورچین کا کچھ چیزوں میں خاصا عمل دخل ہے‘‘۔
(وی او اے نیوز)