لاہور ہائی کورٹ نے پولیس کو جمعرات کی صبح 10 بجے تک عمران خان کی رہائش گاہ پر کسی بھی قسم کے آپریشن سے روک دیا ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری پر جاری کارروائی رکوانے کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے سماعت جمعرات کی صبح 10 بجے تک ملتوی کرتے ہوئے پولیس کو حکم دیا ہے کہ وہ مال روڈ کینال پل، دھرم پورہ اور ٹھنڈی سڑک پر 500 میٹر دُور رہے۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے ضیاء الرحمٰن کے مطابق جسٹس طارق سلیم شیخ نے پنجاب پولیس کے انسپکٹر جنرل اور اسلام آباد پولیس کے آپریشن انچارج کو طلب کیا تھا۔
زمان پارک میں پولیس کی کارروائی کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت شروع ہوئی تو پی ٹی آئی کے وکلا نے مؤقف اختیار کیا کہ آج یہ سب سے اہم پٹیشن ہے۔ زمان پارک میں جو ہو رہا ہے اس سے سب واقف ہیں۔ پورے شہر کی سیکیورٹی کو رسک پر لگا ہوا ہے۔ جنگ و جدل کا سماں ہے۔
وکلا کا مزید کہنا تھا کہ پولیس کی کارروائی میں زائد المیعاد شیل استعمال کیےجا رہے ہیں۔ سی سی پی او کو بلا کر اس حوالے سے پوچھا جائے۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ یہ کوئی ٹی وی ٹاک شو نہیں ہے۔ عدالت کو قانون کے مطابق بتاتے جائیں۔ انہوں نے وکلا کو اپنی استدعا پڑھنے کا حکم دیا۔
بعد ازاں عدالت نے صوبائی اور وفاقی حکومت کے وکلا کو بھی طلب کر لیا۔ عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو دن دو بجے طلب کیا جس پر وہ عدالت میں پیش ہوئے۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شان گل نے عدالت میں پیش ہو کر کہا کہ یہ درخواست قابلِ سماعت نہیں ہے۔ وارنٹ گرفتاری پر عمل ہوتا یا پھر وہ کینسل ہوتے ہیں۔
اس پر جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ کیوں نہ پنجاب پولیس کے آئی جی اور چیف سیکریٹری کو طلب کر لیا جائے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ اسلام آباد پولیس سے کون ہے؟
اس پر وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ اسلام آباد پولیس کے ڈی آئی جی لاہور میں ہیں۔ ان کے بارے میں عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ وہ زخمی ہوئے ہیں۔
اس پر جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ اسلام آباد پولیس سے بھی کوئی یہاں ہونا چاہیے۔ اس معاملے کو کسی طرح ٹھیک بھی تو کرنا ہے۔
وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ اسلام آباد پولیس پر لاہور ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار نہیں ہے۔
جسٹس طارق سلیم شیخ کا کہنا تھا کہ جب اسلام آباد پولیس یہاں آ گئی ہے۔ تو یہ میرے دائرہ اختیار میں ہے۔ اسلام آباد پولیس کے آپریشن کرنے والے حکام کو عدالتی حکم سے آگاہ کر دیں۔ وہ نہ آئیں تو وارنٹ جاری کریں گے۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شان گل نے کہا کہ میں عدالت کے حکم سے مطلع کر دیتا ہوں۔
لاہور ہائی کورٹ کے ایک رکنی بینچ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے پنجاب پولیس کے انسپکٹر جنرل (آئی جی)، چیف سیکریٹری پنجاب اور اسلام آباد پولیس کے آپریشن انچارج کو تین بجے طلب کر لیا۔
قبل ازیں پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری کی قیادت میں وکلا کا وفد لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس امیر حسین بھٹی کی عدالت میں پیش ہوئے۔
مقامی میڈیا کے مطابق فواد چوہدری نے عدالت کو آگاہ کیا کہ تحریکِ انصاف کے ساتھ پولیس کی جانب سے غلط برتاؤ کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے چیف جسٹس سے استدعا کی کہ عدالت لاہور کی پولیس کے چیف سی سی پی او کو طلب کریں اور ان کو آپریشن روکنے کا حکم دیں۔
اس پر چیف جسٹس امیر حسین بھٹی نے پی ٹی آئی کے وکلا سے استفسار کیا کہ اس معاملے کی پٹیشن کہاں ہے۔ بغیر پٹیشن کے اس معاملے کو کس طرح سن سکتے ہیں یا اس پر کوئی حکم جاری کر سکتے ہیں؟
پی ٹی آئی کے وکیل اظہر صدیق نے عدالت کا آگاہ کیا کہ پی ٹی آئی پٹیشن تیار کر رہی ہے۔
عدالت نے عمران خان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری کے حوالے سے استفسار کیا کہ یہ کب جاری ہوئے تھے؟وکیل اظہر صدیق نے عدالت کو بتایا کہ یہ وارنٹ دو دن قبل 13 مارچ کو جاری ہوئے تھے جس کے مطابق عمران خان کو 18 مارچ کو عدالت میں پیش ہونا ہے۔
عدالت نے پی ٹی آئی کے وکلا کو کہا کہ یہ معاملہ اسلام آباد کا ہے۔ اس لیے آپ وہاں عدالتوں سے رجوع کریں۔
اس پر پی ٹی آئی کے رہنما نے عدالت سے استدعا کی کہ یہ معاملہ لوگوں کی زندگی کا ہے۔ تحریکِ انصاف اگلے آدھے گھنٹے میں پٹیشن دائر کر دے گی۔ عدالت اس پر حکم جاری کر دے اور پی ٹی آئی کی درخواست کی فوری سماعت کی جائے۔
لاہور ہائی کورٹ کے بینچ نے فواد چوہدری کو کہا کہ یہ سارا معاملہ منگل کی رات سے جاری ہے جب کہ پی ٹی آئی اب عدالت آئی ہے۔ اس کو صبح ساڑھے آٹھ بجے عدالت پہنچنا چاہیے تھا۔
چیف جسٹس امیر بھٹی کا کہنا تھا کہ وہ بغیر پٹیشن کے کوئی حکم کیوں جاری کریں؟ مقدمات کے حوالے سے جو نظام موجود ہے اسی کے مطابق درخواست سماعت کے لیے مقرر ہو گی۔
وکلا نے عدالت کو بتایا کہ درخواست پر عمران خان کے دستخط کرانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
عدالت نے پی ٹی آئی کے وکلا کو کہا کہ درخواست پر عمران خان کے دستخط کرانے کی ضرورت نہیں بلکہ کوئی بھی دستخط کرکے درخواست جمع کرا سکتا ہے۔
بعد ازاں اس کیس کی سماعت سنگل بینچ کے حوالے کی گئی جس کے جج جسٹس طارق سلیم شیخ تھے۔
خیال رہے کہ لاہور میں منگل سے اسلام آباد پولیس پنجاب پولیس کی معاونت سے عدالتی احکامات پر عمل درآمد کے لیے مصروف ہونے کا دعویٰ کر رہی ہے۔
اسلام آباد کی ایک عدالت نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔ اس وارنٹ کی بنیاد پر اسلام آباد پولیس عمران خان کی گرفتاری کے لیے لاہور میں موجود ہے۔