رسائی کے لنکس

سعودی عرب میں مجسموں کی نمائش؛’ پہلے اس کا تصور بھی ممکن نہیں تھا‘


مٹی سے برتن اور مجسمے بنانے والی سعودی فن کار عواطف القینیبط سر اٹھائے بڑے فخر کے ساتھ ریاض کی ایک گیلری میں داخل ہورہی ہیں جہاں ان کے تیار کیے گئے فن پاروں کی نمائش جاری ہے۔

عواطف اس نمائش کے انعقاد پر تو خوش ہیں ہی لیکن اپنے فن کی پذیرائی کے علاوہ اس خوشی کی ایک اور وجہ بھی ہے۔ کیوں کہ اس خواب کو پورا ہونے میں کئی دہائیاں لگی ہیں۔

اس سے قبل سعودی عرب میں مذہبی ممانعت کی وجہ سے انہیں مجسموں اور انسانی نقش و نگار والے فن پاروں کی نمائش کی اجازت نہیں ملی تھی۔

حالیہ برسوں میں ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے اصلاحات کی وجہ سے اب اس پابندی میں نرمی کی گئی ہے جس کے بعد یہ نمائش اور کئی دیگر ثقافتی سرگرمیاں ممکن ہوئی ہیں۔

ساٹھ سالہ عواطف القینیبط کہتی ہیں کہ کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ ایک دن تہہ خانوں میں ہونے والی نمائش ریاض کی آرٹ گیلری تک پہنچ جائے گی۔

وہ بتاتی ہے کہ پہلے جب انہوں نے اپنے فن پاروں کی نمائش کی خواہش ظاہر کی تھی تو بتایا گیا تھا کہ اسلام میں یہ ممنوع ہے۔ لیکن اب سعودی دارالحکومت کے مرکز میں ان کے فن پاروں کی نمائش ہورہی ہے۔

عواطف القنیبیط
عواطف القنیبیط

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق اسلام کی روایتی تعبیر اور خاص طور پر سعودی عرب میں وہابی نظریات کی بنیاد پر مجسمہ سازی یا مٹی پر انسانوں کے نقش و نگار بنانے کو اسلامی تعلیمات کے منافی تصور کیا جاتا ہے۔

بعض مذہبی علما اسلام کی آمد سے قبل عرب میں بتوں کی پرستش کو بھی مجسمہ سازی کی ممانعت کی وجہ قرار دیتے ہیں۔

تہہ خانے سے گیلری تک

محمد بن سلمان نے سعودی سماج پر وہابی نظریات کا اثر کم کیا ہے۔ انہوں نے مذہبی پولیس کے اختیارات کو محدود کیا ہے اور خواتین پر عائد ڈرائیونگ کی پابندی بھی ختم کردی ہے۔

ان اصلاحات کے باوجود حقوقِ انسانی کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں اور افراد حکومت کے ناقدین پر کریک ڈاؤن اور آزادیٔ اظہار پر عائد پابندیوں کی وجہ سے سعودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔

عواطف القینیبط امریکہ سے تعلیم یافتہ ہیں۔ انہوں نے 2009 میں اپنے فن پاروں کی نمائش منعقد کرنے کی کوشش کی تھی لیکن حکومت کی جانب سے انہیں اجازت نہیں ملی تھی۔

اس کے بعد انہوں نے اپنے گھر کے تہہ خانے میں نجی گیلری بنا کر اپنے دوستوں کو مدعو کرکے محدود پیمانے پر نمائش منعقد کرلی تھی۔

آج ان کے کیے گئے مجسموں اور دیگر فن پاروں کو ریاض کی مشہور گیلریز میں پیش کیا جا رہا ہے اور ان کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کے دیگر فن کار بھی اس نئی ملنے والی آزادی سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔

عواطف القنیبیط نے اس نمائش میں وہ فن پارے بھی رکھے ہیں جو انہوں نے ممانعت کے دور میں بنائے تھے۔ ان میں مٹی سے تیار کیے گئے چہروں کے نقوش بھی شامل ہیں جنھیں آہنی زنجیروں میں جکڑا دکھایا گیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ انہیں ایک کے بعد دوسرا دھچکا لگا ہے۔ ان کے مطابق وہ سعودی عرب کی ایسی نسل سے تعلق رکھتی ہیں جس نے مکمل پابندیوں کے بعد مکمل آزادی کا دور دیکھا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ خدا نے چاہا تو ہم جلد توازن حاصل کرلیں گے۔

اس خبر کے لیے معلومات ’رائٹرز‘ سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG