اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزول جج شوکت عزیز صدیقی نے الزام عائد کیا ہے کہ عدلیہ اور فوج کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے پاکستان اس وقت مشکل حالات سے گزر رہا ہے۔
وائس آف امریکہ کو خصوصی انٹرویو میں شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ عدلیہ میں اتنی سکت نہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف آواز اٹھا سکے اس لیے وہ ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے غلط کاموں کو تحفظ فراہم کرتی رہی ہے۔
ان کے بقول، "29 نومبر 2022 تک بہت سی چیزوں کو میں خود بطور جج دیکھ رہا تھا اور پھر اپنے کیس کے حوالے سے بھی مجھے نظر آرہا تھا کہ آرمی کا عدلیہ پر دباؤ موجود تھا۔"
سابق جج نے کہا کہ نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے آنے کے بعد انہیں عدلیہ میں سے اب تک کسی نے نہیں بتایا کہ فوج نے کسی جج پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی ہے۔
حکومت سازی اور ریاست کے معاملات میں عدلیہ کب سے اپنا کردار ادا کررہی ہے؟ اس سوال پر شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ ایوب خان سے جسٹس منیر اور پھر جنرل قمر جاوید باجوہ سے ثاقب نثار تک یہ چیزیں چلتی آرہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ فوج، عدلیہ اور انتظامیہ کا پاکستان بنانے میں کوئی کردار نہیں۔ 14 اگست 1947تک یہ سب لوگ انگریزوں کی ملازمت کررہے تھے۔ اس وجہ سے انہیں اس ملک کے آئین کا احساس نہیں۔ ان کے بقول ہمیشہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ نے مل کر حکومتوں کو ٹف ٹائم دیا ہے۔پاکستان کی تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسا مرحلہ آیا ہو جب حکومتی معاملات میں مداخلت نہ کی گئی ہو۔
واضح رہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے 2018 میں شوکت عزیز صدیقی کو بطور جج اسلام آباد ہائی کورٹ برطرف کر دیا تھا۔ان کے خلاف اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے سرکاری گھر کی تزئین و آرائش کے لیے لاکھوں روپے خرچ کرنے کا ریفرنس دائر ہوا تھا۔
شوکت عزیز صدیقی نے اس سے قبل راولپنڈی بار سے خطاب کے دوران فوج کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس ( آئی ایس آئی) پر عدالتی معاملات میں مداخلت کا الزام عائد کیا تھا۔ ان کی برطرفی کا معاملہ اب بھی سپریم کورٹ میں زیرِ التوا ہے۔
جنرل فیض حمید سے ملاقاتیں کیوں کی؟
آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل فیض حمید کے ساتھ ملاقاتوں کے بارے میں شوکت عزیز صدیقی نےبتایا کہ جنرل فیض سے ان کی دو ملاقاتیں ہوئی تھیں۔
ان کے بقول، "میں جب سرکاری رہائش گاہ میں رہ رہا تھا تو وہ میرے گھر آئے تھے، اس وقت جتنے بھی معاملات چل رہے تھے ان میں ہمارے ادارے کے بڑے اور فوج کے بڑے اس وقت یک جان دو قالب بنے ہوئے تھے۔لہذا اس وقت میں نے جو کچھ کہا اس پر میری کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔"
شوکت عزیز صدیقی کے مطابق انہوں نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس انور کاسی سے جب بات کی تو انہوں نے کہا کہ "جو وہ کہتے ہیں کرتے جائیں، چھوڑیں ان کے ساتھ (اختلاف کرنا) مناسب نہیں" ۔
شوکت صدیقی نے کہا کہ جنرل فیض سے ہونے والی ملاقات کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال کے نتیجے میں ان کے اپنے چیف جسٹس سے سنجیدہ نوعیت کے اختلافات ہوگئے تھے۔
کسی جج کا ڈی جی آئی ایس آئی سے ملنا ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی نہیں؟ اس سوال پر شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ اگر وہ مجھ سے کسی کیس کے حوالے سے ملنے کا کہہ کر آتے تو یقیناً یہ کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی تھا لیکن آنے سے پہلے انہوں نے کسی کیس کا ذکر نہیں کیا تھا۔
سابق جج کے مطابق انہوں نے اسلام آباد میں تمام تجاوزات ختم کرنے کا ایک حکم جاری کیا تھا جس کی زد میں آئی ایس آئی کے دفتر کے قریب سڑک بھی آئی تھی جسے طویل عرصے سے سیکیورٹی کے نام پر بند کر رکھا تھا۔
ان کےبقول، "اس وقت کے سیکٹر کمانڈر انہیں عمرہ کی مبارک باد دینے کا کہہ کر ان کے پاس آئے اور باتوں باتوں میں انہوں نے تجاوزات کیس کا حکم واپس لینے کا کہا ۔ میں اس وقت عمرہ سے واپسی کے بعد ایک مخصوص کیفیت میں تھا جس کی وجہ سے میں نے صرف اتنا کہا کہ آپ فی الحال چلے جائیں، بجائے اس کے کہ میں آپ کے خلاف کوئی کارروائی کروں۔"
شوکت صدیقی نے کہا کہ آئی ایس آئی افسر کی جانب سے زیادتی کے بعد جنرل فیض حمید نے کہا کہ وہ اپنے ماتحت کی بدتمیزی پر معذرت کے لیے آنا چاہتے ہیں۔ جس پر انہیں آنے کی اجازت دی لیکن جنرل فیض نے ملاقات کے دوران وہ گفتگو کی جو ان کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھی۔
یاد رہے کہ شوکت عزیز صدیقی نے جنرل فیض کے بارے میں الزام لگایا تھا کہ اس ملاقات میں انہوں نے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے مقدمات کے بارے میں کہا تھا کہ اگر میرٹ پر فیصلہ ہوا تو ان کی سالوں کی محنت ضائع ہوجائے گی۔
چیف جسٹس ثاقب نثار سے اختلافات کیوں تھے؟
شوکت عزیز صدیقی نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے ساتھ اختلافات پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ ثاقب نثار سمجھتے تھے کہ میں ضرورت سے زیادہ آزاد ہوں اورجو درست سمجھتا ہوں کرگزرتا ہوں۔"
ان کے بقول، "ایک واقعہ ایسا ہوا جو شاید میرے لیے ان کی ناپسندیدگی میں اضافے کا باعث بنا؛ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی صدارت میں ایک لا کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس میں، میں بھی مدعو تھا۔ کھانے کی ٹیبل پر ثاقب نثار نے مجھے رعونت سے کہا " اوئے تم کیوں سب کی نوکریوں کے پیچھے پڑے ہو آرام سے چلو نا"۔ اس پر میں نے انہیں کہا کہ 64،65 سال ہوگئے سب نوکریوں کی ہی فکر کررہے ہیں، کبھی پاکستان کی بھی فکر کرلیں۔"
شوکت صدیقی کے مطابق ثاقب نثار نے ان کی بات پر بہت برا منایا اور اس کے بعد اور بھی کچھ چیزیں ہوتی رہیں۔ ان کے بقول چیف جسٹس ثاقب نثار نے میرے خلاف پہلا ریفرنس گھر کی تزئین و آرائش کا فرمائش کرکے بنوایا تھا جس پر انہیں بہت تکلیف ہوئی تھی۔
'ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ گردن دبانا چاہتے تھے'
ماضی میں سپریم کورٹ پر عدم اعتماد کرنے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ "میں نے سپریم کورٹ پر عدم اعتماد کبھی نہیں کیا البتہ یہ ضرور کہا کہ اس وقت ہماری عدلیہ پر بندوق والوں کا بہت زیادہ اثر ہوگیا ہے۔میں نے اس نظام کو بچانے کے لیے قربانی دی اور عوام کو آگاہ کیا کہ عدلیہ کے نظام میں بعض لوگ کس طرح مداخلت کررہے ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ کا معمول ہے کہ ارجنٹ کیسز کی ایک لسٹ بنتی ہے جو چیف جسٹس کے پاس مارکنگ کے لیےدوپہر کے وقت جاتی ہے۔ لیکن ان کے بقول وہ لسٹ چیف جسٹس کے آفس سے پہلے آئی ایس آئی کے پاس جاتی تھی۔
شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ انہیں علم تھا کہ جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس آصف سعید کھوسہ ان کی گردن دبانا چاہتے تھے لیکن اس کے باوجود اپنے کیس میں سپریم کورٹ کے ججز کو کہا کہ آپ جو بھی فیصلہ کریں گے وہ قبول ہوگا۔
'رشوت لینے پر اپنے جج کو خود برطرف کیا'
شوکت عزیز صدیقی نے ایک جج کو رشوت لینے کے الزام میں برطرف کرنے کے الزام پر کہا کہ ایڈیشنل سیشن جج نے آئی ایس آئی کے ایک افسر کےساتھ پانچ کروڑ روپے کی ڈیل کی جس کا اعتراف انہوں نے جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس راجہ جواد عباس کے سامنے کیا تھا۔
یہ معاملہ اب بھی عدالت میں زیرِ سماعت ہے جس میں نجی ٹی وی چینل 'بول' ٹی وی کے مالک شعیب شیخ پر الزام ہے کہ انہوں نے جج عبدالقادر میمن کو رشوت دے کر بریت کا فیصلہ حاصل کیا۔ اس کیس میں شعیب شیخ کو حالیہ دنوں میں گرفتار بھی کیا گیا تھا جس کے بعد انہیں ضمانت دے دی گئی ہے۔