رسائی کے لنکس

کیا پاکستان سے نیوکلیئر پروگرام کے حوالے سے کوئی مطالبہ کیا گیا ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے وائس چیئرمین اور سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ کیا پاکستان سے جوہری پروگرام کے حوالے سے کوئی مطالبہ کیا گیا ہے، اگر ایسا نہیں ہوا تو وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے سینیٹ میں ایٹمی پروگرام سے متعلق بیان کیوں دیا ؟

اسلام آباد میں اتوار کو نیوز کانفرنس میں شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پروگرام پر آئے دن اعتراضات کیے جاتے ہیں۔'' کبھی کہا جاتا ہے کہ غلط لوگوں کے ہاتھ لگ جائے گا۔ کبھی سیکیورٹی سسٹم پر بات کی جاتی ہے۔ یہ سب بالکل غلط ہے۔ پاکستان کے جوہری تنصیابات کی سیکیورٹی کا پروگرام مکمل طور پر محفوظ ہے''۔

ایسے میں، بقول ان کے، اسحاق ڈار کے بیان نے ایک بحران کو جنم دیا ہے۔

حالیہ عرصے میں حکومتی شخصیات کے بیانات کے تناظر میں یہ دعویٰ سامنے آیا ہے کہ پاکستان سے قرضوں کے عوض ایٹمی پروگرام محدود کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے۔البتہ پاکستان کا دفترِ خارجہ اس کی تردید کر چکا ہے۔

بعضس تجزیہ کاروں کا دعویٰ ہے کہ موجودہ حالات کے تناظر میں عالمی طاقتوں کی طرف سے ایسے مطالبات سامنے آنا اچنبھے کی بات نہیں ہے۔

دفاعی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ان حالات میں پاکستان کی تمام سیاسی قوتوں کو ایک ساتھ بیٹھ کر مشترکہ لائحہ عمل بنانا چاہیے تاکہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے حوالے سے کوئی بھی منفی بات نہ ہو سکے۔

تین دن قبل سینیٹ کے اجلاس میں وفاقی وزیرِ خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے بیان دیا تھا کہ قومی مفاد کا تحفظ کرنا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جوہری یا میزائل پروگرام پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے۔ انہوں نے زور دے کر کہا تھا کہ کسی کو حق نہیں کہ پاکستان کو بتائے کہ وہ کس رینج کے میزائل یا جوہری ہتھیار رکھے گا۔

اسحاق ڈار کے اس بیان کے حوالے سے شاہ محمود قریشی کا پریس کانفرنس میں مزید کہنا تھا کہ اس بیان پر ترجمان وزارتِ خارجہ کو وضاحت دینی پڑی۔ ترجمان کے مطابق جوہری پروگرام سے متعلق بات چیت کسی ملک سے مذاکرات کے ایجنڈے میں نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسحاق ڈار حکومتی سینیٹر ہیں، انہوں نے یہ بیان سینیٹ کے فلور پر کیوں دیا؟

شاہ محمود قریشی نے وزیرِ خزانہ کے حوالے سے مزید کہا کہ اسحاق ڈار بتائیں کہ کیا آپ سے آئی ایم ایف نے میزائل سسٹم کے حوالے سے کوئی مطالبہ کیا ہے۔ آپ نے ایوان میں اتنا بڑا بیان کیوں دیا؟

سابق وزیرِ خارجہ کا کہنا ہے کہ وزیرِ خزانہ ایٹمی اثاثوں سے متعلق بات کر رہے ہیں، کیا انہیں غیر ذمے دارانہ بات کرنی چاہیے؟

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے سوال کیا کہ چین نے ہمارا ساتھ دیا لیکن کیا آج چین کے ساتھ ہمارا تعلق کسی خطرے سے دوچار ہے؟ موجودہ حالات میں یہ ایک بہت بڑا بیان ہے ۔جب ایسی باتیں کی جاتی ہیں تو ان کے اثرات ہوتے ہیں۔ رضا ربانی نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کا مطالبہ بھی کیا۔ آئی ایم ایف کے تمام مطالبات ماننے کے باوجود معاہدہ کیوں نہیں ہو رہا؟ یہ سب باتیں افواہوں کو جنم دے رہی ہیں۔

پی ٹی آئی رہنما نے مزید کہا کہ کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ ہمارے ایٹمی اثاثوں کے بارے میں ہم سے سوال جواب کرے۔ ہمارا جوہری پروگرام اپنے دفاع کے لیے ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے 16 مارچ کو اس بارے میں ایک اعلامیہ جاری کیا تھا جس میں پاکستان کی حکومت نے جوہری پروگرام سے متعلق قیاس آرائیوں کو رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک کے ایٹمی پروگرام پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔

وزیرِ اعظم آفس کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کا میزائل اور ایٹمی پروگرام مکمل طور پر محفوظ اور فول پروف ہے۔

اس اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ عالمی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ڈائریکٹر جنرل رافیل ماریانو گروسی کے دورۂ پاکستان کے تناظر میں سوشل میڈیا پر منفی مہم چلائی جا رہی ہے، جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ماریانو گروسی نے گزشتہ ماہ پاکستان کا دو روزہ دورہ کیا تھا۔

یہ تمام معاملہ اس وقت شروع ہوا جب پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور ایوانِ بالا کے رکن سینیٹر رضا ربانی نے ایک بیان جاری کیا تھا جس میں پاکستان کے جوہری پروگرام سے متعلق خدشات ظاہر کیے گئے تھے۔

رضا ربانی نے چھ مارچ کو جاری کیے گئےبیان میں وزیرِ اعظم شہباز شریف سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ آئی ایم ایف معاہدے میں تاخیر اور ملکوں کی ہچکچاہٹ کے معاملے پر ایوان کو اعتماد میں لیں۔

رضا ربانی نے کہاتھا کہ پاکستان کے لوگوں کا حق ہے کہ انہیں بتایا جائے کہ کیا ایٹمی اثاثے کسی دباؤ میں ہیں یا کیا ہمارے چین کے ساتھ اسٹرٹیجک تعلقات خطرے میں ہیں؟

لیکن وزیرِ اعظم آفس کے اعلامیے میں کہا گیا کہ پاکستان کا ایٹمی اور میزائل پروگرام ایک قومی اثاثہ ہے جس کی ریاست غیرت مندی سے حفاظت کرتی ہے۔

اس معاملے پر پاکستان کی فوج کے سابق میجرجنرل اعجاز اعوان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسحاق ڈار کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف کی طرف سے لانگ رینج میزائل پروگرام محدود کرنے کا کہا گیاہے جس کے بارے میں اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ ہم ایسی کسی بات کو نہیں مان سکتے۔اس کا مطلب ہے کہ کوئی نہ کوئی بات ضرور ہورہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک اتنا بڑا ملک جہاں 22 کروڑ لوگ بستے ہیں اور اس کے فارن ایکسچینج ریزرو صرف چار ارب ڈالر ہیں۔ وہ آئی ایم ایف اور ہر ڈونر کی طرف مدد کے لیے دیکھ رہا ہو تو ان حالات میں ایسے مطالبات ہونا اچنبھے کی بات نہیں ہے۔

میجر جنرل (ر)اعجاز اعوان نے کہا کہ پوری دنیا بالخصوص امریکہ نہیں چاہتا تھا کہ پاکستان جوہری ملک رہے اور جب ہم بن گئے تو اس کے بعد جوہری پھیلاؤ کا الزام لگایا گیا جس میں ڈاکٹر عبد القدیر خان پر الزام لگا۔ اس کے بعد ایٹمی اثاثوں کی سیکیورٹی درست نہ ہونے کا الزام لگا جب کہ پاکستان کی تھری لیئر سیکیورٹی کے باوجود اس پر شک کیا جاتا ہے۔ ایسے میں عین ممکن ہے کہ پاکستان کو دیوالیہ ہوتے ہوئے دیکھ کر ایسی شرائط عائد کی گئی ہوں۔

میجرجنرل (ر) اعجاز اعوان نے کہا کہ ہماری اصل وجہ معاشی بدحالی ہے لیکن جیو اسٹریٹجک لوکیشن بھی پاکستان کو ہر وقت نظروں میں رکھتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چین کے ساتھ پاکستان کا تعلق ہر ایک کو نظر آتا ہے۔ چین نے ہمیشہ پاکستان کی مدد کی اور اس کی فضائی اور بری فورسز میں چین کا انحصار بہت زیادہ ہے۔ یہ سب امریکہ کو پسند نہیں ہے اور اس کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ اسلام آباد بیجنگ سے دوری اختیار کرے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری مختلف حکومتیں کبھی چین اور کبھی امریکہ سے قریب ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ہم پر امریکی دباؤ بھی رہتا ہے اور چین والے بھی اکثر ناراض رہتے ہیں۔ اسی وجہ سے چین ایران سے بہت نزدیک ہو رہا ہے اور ایران میں آئندہ چند برس میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ کر رہا ہے۔ ایسے میں چین اور امریکہ کی مخالفت میں دونوں پاکستان کو ساتھ رکھنا چاہتے ہیں کہ کوئی ایک دوسرے کے اثر کو کم کرسکے۔

ان کے بقول پاکستان کو راستہ تلاش کرنا ہے کہ اپنی خود مختاری کا تحفظ کرتے ہوئے دونوں ممالک سے فائدہ بھی اٹھائے اور بین الاقوامی سطح پر ایک اچھے ملک کا تشخص بھی برقرار رکھے۔

سینئر دفاعی تجزیہ کار لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے کہا کہ بہت عرصے سے یہ بات چل رہی تھی اور ماضی میں وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی کہا تھا کہ پاکستان کے معاشی حالات کی وجہ سے اس نہج تک بات پہنچ سکتی ہے کہ پاکستان سے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے کوئی مطالبہ کیا جائے۔ آئی ایم ایف امریکہ کے ایک بار اشارہ کرنے پر پاکستان کو پیسے دے سکتا تھا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔

ان کے مطابق امریکہ نے پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کے معاملات میں ایسا الجھایا کہ پاکستان کی تمام آمدن کے حوالے سے معاملات ان کی نظر میں ہیں۔ اب آئی ایم ایف نے بہت تھوڑے پیسوں کے لیے پاکستان کو پھنسایا ہوا ہے اور ایسی شرائط جن کا آئی ایم ایف کے ساتھ کوئی تعلق نہیں وہ بھی رکھی کی جارہی ہیں۔

لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کے بقول ایسے حالات میں عین ممکن ہے کہ آئی ایم ایف نے اپنے پروگرام کے ذریعے پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ہو۔

امجد شعیب نے کہا کہ موجودہ حکومت کو عوامی حمایت بھی حاصل نہیں ہے اور اگر ایسا کام کیا گیا تو ملک میں خون خرابہ ہوسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے لیے ضروری ہے کہ آل پارٹیز کانفرنس بلائی جائے جہاں مشترکہ قومی لائحہ عمل بنایا جائے اور بتایا جائے کہ پاکستان پر ایسے دباؤ ہیں ۔

امجد شعیب کے مطابق پاکستان کے دوست ممالک بھی اس وقت اسلام آبادسے خوش نہیں ہیں۔ چین نے پاکستان کی ہمیشہ مدد کی، اس وقت پاکستان سے اپنے قرض میں دی گئی رقم واپس مانگ رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے امریکہ سے تعاون بڑھانے کی کوشش کی۔ روس کو ناراض کیا۔ ایسے میں چین کے پاس ایران کا راستہ موجود ہے۔ جہاں چاہ بہار سے چین تجارت کر سکتا ہے۔ اب اگر گوادر نہ بھی ہو تو چین کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہم نے چین کو ناراض کیا ہے۔ اس کے ساتھ سعودی عرب بھی بدل چکا ہے اور وہ بھی امداد دینے کو تیار نہیں اور اپنے حالات خود بہتر کرنے کا کہہ رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں سیاسی استحکام نہیں ہے اور اب کوئی ملک بھی پاکستان کی مدد کرنے کو تیار نظر نہیں آ رہا۔

امجد شعیب کا کہنا تھا کہ ایسے میں صرف آل پارٹیز کانفرنس واحد حل ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو بلایا جائے۔ ابھی معاملہ پارلیمنٹ میں نہیں آسکتا کہ پی ٹی آئی وہاں موجود نہیں ہے۔ ایسے میں اے پی سی بلوا کر عالمی سطح پر پوری قوم کی ایک آواز کا پیغام دینا چاہیے۔

XS
SM
MD
LG