پاکستان کی وفاقی کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ پنجاب میں انتخابات کے لیے سپریم کورٹ کے حکم پر فنڈز کے اجرا کا معاملہ قومی اسمبلی میں اٹھایا جائے گا۔
اتوار کو کابینہ کا خصوصی اجلاس وزیرِ اعظم شہباز شریف کی صدارت میں لاہور میں ہوا۔ اجلاس میں کئی وفاقی وزرا ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے شریک ہوئے۔
مقامی میڈیا کے مطابق اجلاس لگ بھگ ڈھائی گھنٹوں تک جاری رہا جس میں صورتِ حال پر تفیصلی بحث و مباحثہ ہوا. البتہ اس میں فنڈز کے اجرا پر کو ئی حتمی فیصلہ نہ ہو سکا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ ملک کے معاشی حالات کے پیشِ نظر یہ معاملہ پارلیمان کے اجلاس میں اٹھایا جائے گا۔
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے پیر کو سپریم کورٹ کو آگاہ کرنا ہے کہ حکومت نے اسے پنجاب میں مئی میں انتخابات کےلیے فنڈز جاری کیے یا ایسا نہ ہوسکا۔
دوسری جانب قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے بھی اعلامیہ جاری کر دیا ہے کہ پارلیمان کا مشترکہ اجلاس پیر کو چار بجے ہوگا۔
قبل ازیں یہ اجلاس دو بجے ہونا تھا البتہ اس میں دو گھنٹے کی تاخیر کر دی گئی ہے۔
اجلاس میں عدالتی اصلاحات بل پر قانون سازی ہونی تھی۔ مقامی میڈیا کے مطابق اب اجلاس میں الیکشن کے لیے فنڈز کے اجرا کا معاملہ بھی زیرِ بحث آئے گا۔
قبل ازیں، وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کا انگریزی اخبار 'ڈان' سے گفتگو میں کہنا تھا کہ یہ موجودہ حالات پر ایک اہم ملاقات ہے. تاہم، ان کے بقول، اس اجلاس کا ایجنڈا جاری نہیں کیا گیا لیکن اجلاس میں اہم فیصلے کیے جا سکتے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق اجلاس میں پنجاب میں ہونے والے صوبائی انتخابات کے لیے فنڈز کا اجرا، صدر ڈاکٹر عارف علوی کا عدالتی اصلاحاتی بل واپس بھجوانے اور الیکشن کیس میں جسٹس اطہر من اللہ کے عدالتی نوٹ پر غور کیا جائے گا۔
مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق حکومتی شخصیات چیف جسٹس کے زیرِ قیادت تین رکنی بینچ کے پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کے فیصلے پر حکمتِ عملی پر غور کر رہے ہیں۔
سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن التوا کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا جب کہ خیبر پختونخوا میں انتخابات کے معاملے پر متعلقہ فورم سے رجوع کرنے کی ہدایت کی تھی۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ الیکشن کمیشن نے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لیے 8 اکتوبر کی تاریخ دے کر آئینی اختیار سے تجاوز کیا۔ آئین و قانون الیکشن کمیشن کو انتخابی تاریخ میں توسیع کی اجازت نہیں دیتا۔
سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کو 10 اپریل تک 21 ارب روپے کے فنڈز فراہم کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔
سپریم کورٹ کا حکم میں کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے فنڈز نہ دینے کی صورت میں مناسب حکم جاری کیا جائے گا۔
فیصلے پر ردِ عمل دیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے لندن میں مقیم رہنما اور سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ عدالتیں قوموں کو بحرانوں سے نکالتی ہیں نہ کہ انہیں بحرانوں میں دھکیلتی ہیں۔
نواز شریف کا سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں کہنا تھا کہ چیف جسٹس نے نہ جانے کون سا اختیار استعمال کر کے اکثریتی فیصلے پر اقلیتی رائے مسلط کردی۔
اس سے قبل مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر مریم نواز اعلان کر چکی ہیں کہ پارٹی وزیراعظم کی نااہلی کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے نواز شریف کو نا اہل قرار دیا تھا اور اگر سپریم کورٹ نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو انہیں کوئی پرواہ نہیں۔
ان کے بقول انہوں نے پنجاب میں انتخابات پر تین رکنی بینچ کے فیصلے کو مسترد کر دیا ہے جو کہ حقیقت میں تین چار کا تھا۔
رپورٹس کے مطابق وفاقی کابینہ کےہنگامی اجلاس میں سپریم کورٹ کے اختیارات کو ختم کرنے کے لیے پارلیمنٹ کی جانب سے مزید قانون سازی پر بھی تبادلۂ خیال کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ عدالتی اصلاحاتی بل پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے منظور کرانے پر بھی بات چیت کی جائے گی۔
خیال رہے کہ قومی اسمبلی نے عدالتی اصلاحاتی بل منظور کر کے توثیق کے لیے صدر پاکستان کو بھیجا تھا۔ تاہم صدر عارف علوی کی طرف سے بل نظر ثانی کے لیے پارلیمنٹ کو واپس بھیج دیا گیا تھا۔
صدر کا کہنا تھا کہ یہ بل بادی النظر میں پارلیمنٹ کے اختیار سے باہر ہے، بل قانونی طور پر مصنوعی اور ناکافی ہونے پر عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔
صدر کی جانب سے بل واپس بھیجنے پر وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ صدر مملکت کا منظور شدہ بل واپس کرنا افسوسناک ہے۔
ان کے بقول، صدر نے عمل سے ثابت کیا کہ وہ پی ٹی آئی کے کارکن کے طور پر کام کر رہے ہیں۔